سپریم کورٹ میں فاٹا اورپاٹا ایکٹ سے متعلق مقدمہ کی سماعت ہوئی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملک دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکارہے ۔ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکزکی قانونی حیثیت کا ہے ۔ کیا صوبائی اسمبلی قانون بنا کروفاقی قانون کوختم کرسکتی ہے؟ ۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے فاٹا اورپاٹا ایکٹ سے متعلق اپیل پرسماعت کی ۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حراستی مراکزکیوں قائم کیے گئے عدالت کوویڈیودکھانا چاہتا ہوں ۔ چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا آپ دکھانا چاہتے ہیں زیرحراست لوگ بہت خطرناک ہیں؟ ملک دودہائیوں سے دہشتگردی کا شکارہے ۔ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکزکی قانونی حیثیت کا ہے ۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیا یہ وہی ویڈیوہے جو 2015 میں بھی عدالت کودکھائی گئی تھی؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے اکیسویں ترمیم جلدبازی میں منظورکی ۔ جس پرجسٹس گلزارنے کہا کہ استفسارکیا کہ کیا 2008 سے آج تک حراستی مراکزکی قانونی حیثیت چیلنج ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراستی مراکز کی قانونی حیثیت سے متعلق یہ پہلا کیس ہے ۔ تین سے چارماہ میں نیا قانون بن کر نافذ ہو جائے گا ۔ چیف جسٹس کے استفسارکیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت چار ماہ آئین معطل کردے؟
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس طرح توکسی کوبھی ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کرغیرمعینہ مدت تک حراست میں رکھا جائے گا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صوبائی اسمبلی قانون بنا کر وفاقی قانون کوختم کر سکتی ہے؟ اگر 2011 کا قانون موجود ہے تو بات صرف حراست کا جائزے لینے کی رہ جاتی ہے ۔ سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ۔