نئی دہلی: مقبوضہ کشمیر کو آج باقاعدہ طور پر دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
مودی حکومت کی طرف سے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر آج 31 اکتوبر 2019 کو باضابطہ طور پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے۔ اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے بڑے پیمانے پر جشن کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔
جموں اور وادی کے لیے گریش چندر مرمو کو اور لداخ کے لیے آر کے ماتھر کو گورنر مقرر کیا ہے۔ جبکہ پہلے سے جموں کشمیر میں تعینات گورنر ستیا پال ملک کو گُوا کا نیا مقرر کردیا گیا ہے۔
بھارتی اقدام کے بعد لداخ کے بودھ باشندوں میں تشویش شدت اختیار کرگئی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت نے 5 اگست 2019 کو آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا تھا جس کے بعد کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ واپس لے لیا گیا ۔
وزیر داخلہ امِت شاہ نے راجیہ سبھا (بھارتی قومی اسمبلی) کے خصوصی اجلاس میں بتایا کہ صدر رام ناتھ کووند نے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد خطے کی خصوصی حیثیت آج ہی ختم ہو گئی ہے۔ اِمت شاہ نے ایوان میں کہا ’یہ قدم فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔‘
اس سے قبل بھارت نے کشمیر میں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کرنے کے بعد دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔
یہ بھی واضح رہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی رُو سے جموں و کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری، ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے کشمیریوں کو خدشہ تھا کہ اگر یہ دفعہ ختم ہوگئی تو کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں آ کر ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔
پاکستان نے اس بھارتی قدم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کا زیر انتظام کشمیرایک عالمی تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
بھارتی آئین کی اس شق کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ دیا گیا۔ جس کے تحت ریاست دفاع، امورِ خارجہ، مالیات اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور میں خود مختار ہو گی۔ بھارتی آئین کے دیگر حصوں کا نفاذ ریاستی اسمبلی کے اتفاق ہی سے ہوسکے گا۔
اسی طرح اس قانون کے تحت ریاست کے شہریوں کو بھارت کے دیگر شہریوں سے مختلف حقوق حاصل ہیں، جس کی وجہ سے اس آرٹیکل کے تحت ریاست کے شہریوں کے علاوہ کوئی اور شخص یہاں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا۔
آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی صدر صرف جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی ایڈوائس پر ہی آرٹیکل 370 کو ختم کر سکتے ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آئین ساز اسمبلی 1957 میں توڑ دی گئی تھی جس کی جگہ قانون ساز اسمبلی نے لے لی۔ گذشتہ سال بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان اتحاد ختم ہونے کے بعد قانون ساز اسمبلی برطرف کر دی گئی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ بھارتی صدر کے حکم میں آرٹیکل 370 میں موجود قانون سازاسمبلی کے لفظ کو گورنر جموں و کشمیر سے بدل دیا گیا ہے۔ اس طرح گورنر کی رضامندی کو ریاست کی رضامندی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس اقدام کو آنے والے دنوں میں بھارتی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق اور آرٹیکل 370 کو جموں و کشمیر پر بھارتی دعوے کی بنیاد کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور کشمیر پر بھارت کا جبری قبضہ ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات کے خلاف ہے۔