سمندری طوفان کیار اپنی پوری شدت سے بحیرہ عرب میں موجود ہے اور ساحلی سے سات سو پچاس کلومیٹر دور ہے جس کے اثرات سندھ کے ساحلی علاقوں پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ اور ہائی ٹائیڈ اور طوفان کے اثرات کے باعث سمندر پانی ساحلی علاقوں میں داخل ہورہا ہے۔ اور کئی گوٹھوں، علاقوں میں ریسکیو آپریشن بھی ایک حد تک جاری ہے۔
ساحلی پٹیوں کے سمندر سے متاثر ہونے کی خبریں میڈیا میں گردش کررہی ہیں لیکن حیران کو امر یہ ہے کہ ان موجودہ حالات سے بھی پہلے بھی ایک رپورٹ میں خبردار کیا جاچکا تھا۔ حتی کہ رپورٹ میں دوہزار ساٹھ تک کراچی کے سمندر برد ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے وزیراعظم کو دوہزار پندرہ کو خط ارسال کیا تھا ۔ خط میں کہا گیا تھا کہ سمندری مداخلت کے باعث ساحلی شہر ٹھٹھہ ، بدین آئندہ تیس سالوں میں سمندر برد ہوجائیں گے۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اس معاملے کو حل کرنے کیلئے فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو دوہزار ساٹھ تک کراچی بھی سمندر برد ہوجائےگا۔
لیکن حسب روایت اس چونکا دینے والی رپورٹ کے باوجود صاحب اقتدار طبقے کی جانب سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔
حتی کہ خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ وزارت پانی و توانائی، بحریہ ، سمندر پر تحقیق کا ادارہ اوشنوگرافی سمیت دیگر قومی ادارے فوری اس حوالے سے اپنی تحقیق کا آغاز کریں تاکہ اس صورتحال پر قابو میں لایا جاسکے۔
سمندر پر تحقیق کرنے والے قومی ادارے این آئی او کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اگر یہی سمندری مداخلت انڈس ڈیلٹا اور کوسٹ لائن پر جاری رہتی ہے تو تین ساحلی شہر دوہزار ساٹھ تک سمندر برد ہوجائیں گے۔
ماہرین ساحلی علاقوں میں اس قیامت خیز تبدیلی کی وجہ کو موسمیاتی تبدیلی ، درجہ حرارت اور غیر منظم اور بے ہنگم شہری تعمیرات ہیں ۔
مقامی این جی او فشر فالک فورم کے سربراہ محمد علی شاہ نے این آئی او کی رپورٹ کو خطرے کی علامت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ رپورٹ ویک اپ کال ہے۔
انہوں نے ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب تک بائیس لاکھ ایکٹر سے زائد زرعی زمین سمندر برد ہوچکی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق منگروو کا بھی خاتمہ تیزی سے ہورہا ہے اور یہ سب طوفان اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سبب بنتا ہے۔
تاہم اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ساحلی پٹیوں کو سمندری مداخلت سے ہونے والے مزید نقصان سے بچنے کیلئے اقدامات کرے اور منگروو لگائے جائیں اور ساتھ ہی درختوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ کیا جائے تاکہ ان قدرتی آفات سے ملک کو بچایا جاسکے۔