بنگلادیش میں نصرت جہاں رفیع کو زندہ جلانے والے سولہ ملزمان کو سزائے موت سنادی گئی، نصرت جہاں نے اپنے استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا جس کے بعد دباو کے باوجود الزامات واپس نہ لینے پر ان کو زندہ جلادیا گیا تھا۔
واقعے کے بعد بنگلادیش میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، مظاہرین کو مطالبہ تھا کہ نصرت جہاں کے قاتلوں کو فوری طور پر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ نصرت جہاں واقعے کے بعد خواتین کو ہراساں کیے جانے کیخلاف احتجاج کی علامت کے طور پر ابھری تھیں ۔
Source: Reuters
اب بنگلادیشی عدالت نے کیس میں ملوث سولہ ملزمان کو سزا موت سنادی ہے ، سزائے موت سنائے جانیوالوں میں مرکزی ملزم سراج الدولہ بھی شامل ہے ، سراج الدولہ ہیڈ ٹیچر کے فرائض سرانجام دیتا تھا، اور اس پر نصرت جہاں نے ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اس مقدمے کا فیصلہ سات ماہ کے اندر سنایا گیا ،اسلئے اسکو تیز ترین عدالتی کارروائی کہا جاسکتا ہے ، مقدمے میں تمام طالبعلم اور استادوں کو سزا سنائی گئی ہے۔
سزا کے بعد نصرت جہاں کے والد موسی مانیک نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے کئی والدین اپنی بچیوں کو کھونے سے بچ سکیں گے۔
مقدمے میں استغاثہ کا موقف تھا کہ ہیڈ ٹیچر سراج الدولہ نے پہلے نصرت جہاں پر مقدمہ واپس لینے کیلئے جیل سے دباو بڑھایا اور مقدمہ واپس نہ لینے پر قتل کروادیا اور اسکو یہ شکل دی کہ نصرت جہاں نے خودکشی کی ہے۔