صلاح الدین قتل کیس میں حافظ سعید کے کہنے پر قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا گیا۔
صلاح الدین کو مبینہ طور پر ایک اے ٹی ایم سے چوری کرنیکی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا ، رحیم یار خان پولیس کی زیر تفتیش صلاح الدین کی موت واقع ہوگئی تھی جس کے بعد صلاح الدین کے حق میں سوشل میڈیا پر بھرپور آواز اٹھائی گئی تھی، بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صلاح الدین کے ورثاء کو اپنے پاس بلایا تھا اور پھر سوشل میڈیا پر دباو کے پیش نظر صلاح الدین کے قتل کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں مبینہ طور پر ملوث ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کرکے ان کو معطل کردیا گیا تھا، اب صلاح الدین کے والد نے ان پولیس والوں کو معاف کردیا ہے۔ صلاح الدین کے والد کا کہنا ہے کہ میں نے صلاح الدین کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو اللہ کے واسطے معاف کردیا ہے۔ اور اس بات کا اعلان مقامی مسجد سے بھی کردیا گیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق صلاح الدین کے والد محمد افضال نے تصدیق کی کہ مسجد سے معافی کا اعلان ان کی مرضی سے کیا گیا ہے، معافی نامے سے متعلق محمد افضال کا کہنا تھا کہ انہیں ایک دن اپنی جماعت کے امیر حافظ سعید کا پیغام موصول ہوا ۔
بی بی سی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ محمد افضال کے مطابق اسکے بعد ان کو جیل لے جایا گیا جہاں پر حافظ سعید سے ملاقات کروائی ، ملاقات میں حافظ سعید نے تین آپشن رکھے کہ آپکی خواہش کے مطابق یہ پولیس والے سزا کیلئے تیار ہیں ، دیت کے مطالبے پر وہ یہ بھی دینے کیلئے آمادہ ہیں جبکہ تیسرا آپشن ان اہلکاروں کو اللہ کی رضا کیلئے معاف کرنا ہے۔
محمد افضال کے مطابق حافظ سعید انکی جماعت کے امیر ہیں اور وہ ان کا بہت احترام بھی کرتے ہیں ۔
صلاح الدین کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے گھروالوں کے مشورے سے ان پولیس والوں کو اللہ کی رضا کیلئے معاف کردیا ۔
بی بی بی سے بات کرتے ہوئے صلاح الدین کے چچا محمد اعجاز نے بتایا کہ انہیں اس معافی نامے کے حوالے سے اپنے بھائی سے پتہ چلا تاہم اس میں خود شریک نہیں تھے ، محمد اعجاز نے مزید بتایا کہ ایک محکمے کے چند لوگوں نے انکے بھائی سے ملاقات کی تھی جسکے بعد انکے بھائی کی حافظ سعید سےملاقات ہوئی تھی۔
دوسری جانب مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل حسن نیازی نے بی بی سی کو بتایا پہلے ملزم عدالت میں اعتراف جرم کرلے تو دیت، معافی اور سزا کا مرحلہ اسکے بعد شروع ہوتا ہے ، انہوں نے مزید بتایا کہ اس راضی نامے پر انکو شرکت کا کہا گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کردیا کیونکہ اعتراف جرم سے پہلے کسی ملزم کو معافی کیسے دی جاسکتی ہے۔