خیبر پختونخوا حکومت کے فورسز کی کارروائیوں کو قانونی تحفظ دینے اور مبینہ شدت پسندوں کو حراستی مراکز میں رکھنے کے لیے نافذ کردہ مخصوص قوانین ’ایکشنز ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن‘ کو پشاور ہائیکورٹ نے غیرقانونی قرار دیدیا اور ہائیکورٹ نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت گرفتار ملزمان عدالت میں پیش کیے جائینگے۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کی طرف سے اگست میں جاری ہونے والے آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انسپکٹرجنرل پولیس خیبر پختونخوا کو حکم دیا ہے کہ انٹرمنٹ سنٹر اپنے تحویل میں لے ۔
یہ احکامات فاضل بینچ نے پشاور ہائیکورٹ سینئر وکیل شبیر حسین گگیانی کی جانب سے ’ایکشنز ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن کو پشاور ہائیکورٹ میں چلینج کرنے کے بعد جاری کردیئے ہیں۔
اس سے قبل ایکشنز اِن ایڈ آف سول پاور قوانین پہلی مرتبہ 2011 میں اس وقت نافذ کیے گئے جب سابق قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور امنِ عامہ کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی۔
اس وقت یہ قوانین دو ریگولیشنز پر مشتمل تھے جن میں ایک فاٹا کے لیے اور دوسرا پاٹا یعنی ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع کے لیے نافذ کیا گیا۔