گڈانی: بلوچستان کی گڈانی جیل میں وارڈن کو مبینہ طور پر قتل کرنے والی روسی خواتین قیدی کب، کیسے اور کس مقصد کے لیے پاکستان آئیں اور کس طرح گرفتار ہو کر گڈانی جیل تک پہنچیں؟
اس حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات کرتے ہوئے پولیس کا کہنا ہے کہ انتہاء پسند ذہنیت رکھنے والی یہ خواتین جہادی اور تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتی تھیں اور وہ ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوئیں۔
پولیس اور سرکاری دستاویزات کے مطابق روس کی مسلم اکثریتی ریاستوں دغستان اور چیچنیا سے تعلق رکھنے والی 11 خواتین اور بچوں کو 26 اکتوبر 2018ء کو کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں خدیجہ، علیونہ، گلاینہ عرف مریم عرف زینب، ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹے سمیت رزت عرف زینب، ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
کوئٹہ کے علاقے ایئر پورٹ روڈ پر کندھار ناکے کے قریب بجلی روڈ پولیس تھانے کے اہلکاروں نے دوران گشت انہیں مشکوک جان کر روکا۔ سفری اور قانونی دستاویزات نہ ہونے پر پولیس نے انہیں تحویل میں لیا اور ان کے خلاف فارن ایکٹ کی دفعہ 3/14 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
غیر ملکیوں کو جوڈیشل مجسٹریٹ ون کوئٹہ کی عدالت نے 29 اکتوبر 2018ء کو جوڈیشل ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ بھیجا۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق روسی خواتین نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ وہ پاکستان میں پناہ حاصل کرنے آئی ہیں۔
مجسٹریٹ صابر جان نے 18 اپریل 2019ء ان غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر پاکستان داخل ہونے کے جرم میں 15 دن قید اور ایک ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی اور سزا مکمل ہونے کے بعد ڈی پورٹ کرنے کا حکم دیا۔
گڈانی جیل کے سپرنٹنڈنٹ شکیل احمد بلوچ کے مطابق روسی قیدیوں کو جون 2019ء میں کوئٹہ سے گڈانی جیل منتقل کیا گیا تاکہ انہیں اپنے ملک ڈی پورٹ کرنے کا عمل شروع کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں افغان قیدیوں کے علاوہ باقی ممالک کے قیدیوں کو گڈانی جیل میں اس لیے رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ کراچی کے قریب ہے۔ بیشتر ممالک کے قونصل خانے کراچی میں قائم ہیں وہاں سے غیر ملکی سفارتی عملے کو اپنے ملک کے قیدیوں تک رسائی آسان ہوتی ہے۔
سپرنٹنڈنٹ کے مطابق ان خواتین کے ساتھ پکڑے گئے 14 سال سے کم عمر کے چھ بچوں کو جیل کے بچہ وارڈ منتقل کیا گیا جبکہ خواتین قیدیوں کو لیڈیز وارڈ میں رکھا گیا، جہاں ان کے ساتھ کچھ پاکستانی خواتین قیدی بھی موجود تھیں۔
شکیل احمد نے بتایا کہ ہم ان خواتین کو ملک بدر کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں روسی قونصل خانے کے عملے نے جیل کا دورہ بھی کیا لیکن ڈی پورٹ ہونے سے کچھ دن قبل ہی انہوں نے جیل کی وارڈن زویا بنت یحییٰ کو قتل کر دیا۔
جیل کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پانچ میں سے تین روسی خواتین شروع ہی سے انتہاء پسندانہ سوچ کی حامل تھیں۔ ان کی جیل میں قید خواتین اور جیل کے عملے سے بھی مذہب پر بحث ہوتی رہتی تھی۔
وہ جیل عملے اور باقی قیدیوں کو کافر کہتی تھیں۔ قتل کی جانے والی جیل وارڈن زویا کی روسی قیدیوں سے دوستی تھی اور وہ ان کے لیے گھر سے تحائف بھی لاتی تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے زویا کو قتل کیا۔
جیل اہلکار کے مطابق چیچنیا سے تعلق رکھنے والی قیدی واپس اپنے ملک جانا چاہتی تھیں، مگر دغستان سے تعلق رکھنے والی باقی تین قیدی واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اس لیے وہ روسی قونصل خانے کے اہلکاروں کے دورے کے بعد پریشانی کا شکار تھیں۔
پولسی اہلکار نے بتایا کہ وہ جیل کے عملے سے کہتی تھیں کہ آپ ہمیں کیوں کافروں کے ملک بھیجنا چاہتے ہیں۔ شاید انہوں نے قتل بھی اس لیے کیا کہ ان کی واپسی کا عمل رک سکے۔
لسبیلہ پولیس کے ایڈیشنل سپرنٹندنٹ نوید عالم کے مطابق اب تک کی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ خواتین بیرک میں قید پانچ میں سے تین روسی خواتین قتل کے اس واقعے میں ملوث ہیں اور اس واقعہ کے پیچھے مذہبی محرکات ہیں۔ پولیس دیگر پہلوﺅں کو بھی سامنے رکھ کر تفتیش کر رہی ہے۔