Aaj Logo

شائع 29 ستمبر 2019 04:14am

عنایت اللہ "ٹائیگر" کون ہیں؟

پشاور: دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور دیگر سیکیورٹی اہلکار پیش پیش رہے۔  اس دوران متعدد ایسے بہادر اہلکار اور افسران سامنے آئے جو اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر شدت پسندوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑے رہے۔ ان میں بم ڈسپوزل سکواڈ کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے بم ڈسپوزل سکواڈ انچارج عنایت اللہ ٹائیگر بھی ہیں۔

عنایت اللہ ٹائیگر کون ہیں؟

عنایت اللہ ٹائیگر  کو ان کی شجاعت کی بنا پر پولیس فورس کیجانب سے ٹائیگر کا خطاب دیا گیا۔ عنایت اللہ ٹائیگر نے بڑی تعداد میں بم اور بارودی سرنگیں ناکارہ بنائی ہیں، خود کم از کم چھ مرتبہ خود کش دھماکوں اور بارودی مواد ناکارہ کرتے ہوئے دھماکوں کی زد میں آ کر شدید زخمی ہو چکے ہیں۔

عنایت اللہ ٹائیگر کا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، وہ 1978ء میں پیدا ہوئے، انکا تعلق ایک سادہ گھرانے سے ہے۔ انہوں نے ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1998ء میں پولیس میں بھرتی کیلئے اپلائی کیا اور سیلیکٹ ہوگئے، 2000ء میں باقاعدہ طور پر انہوں نے بم ڈسپوزل سکواڈ میں کورس کیا اور کورس مکمل کرنے کے دوران ہی بنا کسی ٹیکنیکل اوزاروں کے دو دیسی ساختہ بم ناکارہ کئے۔

انہوں نے 2650 بم ناکارہ بنانے کے علاوہ 4500 کلو بارود ناکارہ کیا ہے۔ 20 جنوری 2014ء کو عنایت اللہ ٹائیگر کی ایک ٹانگ اور دو انگلیاں مائنز کے دھماکے میں کٹ گئیں، انکا دایاں ہاتھ ایک ایکسیڈنٹ میں بری طرح متاثر ہوا، لیکن وہ پھر بھی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ 23 مارچ 2015ء کو صدر مملکت ممنون حسین کیجانب سے انہیں تمغہ شجاعت بھی مل چکا ہے۔

عنایت اللہ ٹائیگر کا کہنا ہے کہ میرے لئے مشکل ہر ایک آئی ڈی ای ہوتی ہے، کیونکہ آئی ڈی ای جب کوئی تیار کرتا ہے تو وہ اس کو اپنی سوچ سے تیار کرتا ہے، یہ کسی کمپنی کا بنا نہیں ہوتا، آئی ڈی ای کسی بھی صورت میں ہوسکتا ہے، آپ کو بظاہر اینٹی ٹائم مائین نظر آرہا ہوگا لیکن اندر سے وہ ریمورٹ کنٹرول بم بھی ہوسکتا ہے، یا اُس نے سنسر لگا دیا ہو، جو آپ کے ہاتھ لگانے سے بھی پھٹ سکتا ہے، اس لئے آئی ڈی ای کو ناکارہ بنانا واقعی ایک مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ صرف آئی ڈی ای ہی نہیں ہر ایک موصول ہونے والی کال مشکل ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان 19 سالوں میں 10 ہزار سے زائد کالز رسیو کر چکا ہوں، ہر ایک کال پر ڈر ہوتا ہے کہ کہیں میرے پہنچنے سے پہلے یہ بم پھٹ نہ جائے، مطلوبہ مقام پر پہنچنے کی تیاری کرنی ہوتی ہے اور یہ کہ کہیں کوئی سامان رہ نہ جائے۔ مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ میں جا رہا ہوں تو زندہ بھی واپس آؤنگا یا نہیں، جب میں اُس مقام پر پہنچ جاتا ہوں، تب سکون ملتا ہے اور جو ڈر دل میں ہوتا ہے، وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بم پھٹنے کی جو آواز آتی ہے، وہ اچھے اچھے بندوں کو ڈرا کر رکھ دیتی ہے، میں نے کئی بم تباہ کئے، زخمی بھی ہوا، لیکن پھر بھی خدا کا شکر ہے کہ ثابت قدم ہوں۔

عنایت اللہ ٹائیگر کا گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے اور دفتر بھی شہر میں ہی ہے، لیکن وہ اپنے گھر نہیں جا پاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ مہینے میں ایک یا دو دن کے لیے گھر جاتے ہیں اور اس دوران بھی وہ آن کال رہتے ہیں۔ وہ روزانہ دن میں تین مرتبہ گھر فون کرتے اور بچوں سے بات کرتے ہیں اور رات کو کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اپنی اہلیہ سے بات کرتے ہیں۔

عنایت اللہ ٹائیگر کی نجی زندگی صرف اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ منسلک ہے جو ان کے ساتھ پولیس کے محکمے میں کام کرتے ہیں اور انھی کے ساتھ دفتر میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔

عنایت اللہ ٹائیگر کی رہائش دفتر کے ایک کمرے میں ہے جہاں ان کی ضروریات کا سامان موجود ہے جبکہ ان مصنوعی ٹانگ اور یونیفارم نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے کمرے کے ساتھ گودام ہے جس میں بم ڈسپوزل یونٹ کا سامان اور جو مواد انھوں نے ناکارہ کیا ہے، اس کی باقیات رکھی گئی ہیں۔

ان کے دفتر کے سامنے شہدا کی یادگار ہے جہاں چھوٹا سا ایک باغ ہے جس کی دیکھ بھال بھی عنایت اللہ خود کرتے ہیں۔ عنایت اس چمن میں بیٹھ کر اپنے ان دوستوں کو یاد کرتے ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور دوران ڈیوٹی جان گنوا بیٹھے۔

انھوں نے اپنے ساتھیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بعض دوستوں نے کم وقت میں بہت زیادہ کام کیا ہے جن میں پشاور کے بم ڈسپوزل یونٹ کے حکم خان شامل ہیں، جنھوں نے 56 دیسی ساختہ بم ناکارہ کیے تھے لیکن انھیں زندگی نے مزید مہلت نہیں دی۔

عنایت اللہ ٹائیگر نے اپنی ٹانگ کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ یوں سمجھ لیں میری بے احتیاطی کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا، 20 جنوری 2014ء کو تھانہ کلاچی کی حدود لونڑی کے علاقے میں مائنز کی کال موصول ہوئی، جب میں وہاں پہنتچا تو ان مائنز سے تین دھماکے پہلے ہوچکے تھے اور کئی چرواہے بھی زخمی ہوئے، اس کے علاوہ اور بھی مائنز کافی تعداد میں بچھی ہوئی تھیں۔ مائنز فیلڈ میں ہوتا ہوں تو مجھ پہ دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، مائنز کو ناکارہ کرنا جتنا آسان ہے، اتنا ہی خطرناک بھی ہے۔ میں اس وقت مائنز ناکارہ بنانے میں لگا ہوا تھا، 5 سے 6 کے قریب ناکارہ بنا چکا تھا، جبکہ آخری مائن رہ گئی تھی۔ میری عادت ہے کہ میں اپنا کیمرہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں، جہاں بھی کام کر رہا ہوں، میں اس کی ویڈیو ریکارڈنگ ضرور کرتا ہوں، میرے کیمرے کی میموری ختم ہو رہی تھی، ڈرائیور نے آواز دی کے سر میموری کارڈ میں اسپیس ختم ہونے والی ہے، میں وہاں سے اُٹھا کیمرہ بند کیا، شام ہونے والی تھی، علاقہ بھی خطرناک تھا، ذرا جلدی تھی مجھے کہ کام ختم کرکے گھر جاؤں، جب واپس اس مائن کی جانب بڑھا تو جو علاقہ کلیئر کر چکا تھا اس سے تھوڑا ہٹ گیا، جونہی میں اس بم کے قریب بیٹھا تو ایک مائن جو کہ گہرائی کی وجہ سے میری نظر میں نہیں آئی، اس پر پاؤں آگیا اور ایک دم سے دھماکا ہوا، میں اپنی سوچ میں تھا کہ میرا علاقہ سیکیور ہے اور یہ آخری مائن ہے۔ اتنے میں وہاں موجود سیکیورٹی اہلکار نے آواز دی کہ عنایت ختم ہوگیا ہے، میں نے فوراً آواز دی کہ میں ٹھیک ہوں، مجھے اس وقت دھول مٹی کی وجہ سے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میری ٹانگ میرے ساتھ ہے یا نہیں۔ تھوڑی دیر میں دیکھا تو ٹانگ کی ہڈی کٹ کے دور پڑی ہوئی تھی، انگوٹھا اور ساتھ 2 انگلیاں کٹی ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ چھ دھماکوں اور حملوں میں زخمی ہوئے اور اس دوران ان کی جان جا سکتی تھی لیکن شاید اللہ کو اب تک ایسا منظور نہیں تھا۔

واضح رہے کہ  خیبرپختونخوا میں بارودی مواد ناکارہ بنانے والے ادارے بم ڈسپوزل اسکواڈ پر بنائی گئی دستاویزی فلم ’’آرمڈ ود فیتھ‘‘ نے بین الاقوامی ایمی ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق فلمساز اسد فاروقی کی دستاویزی فلم کو حکومت اور سیاست کی کیٹیگری میں ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

Read Comments