مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کم عمر نوجوانوں کو حراست میں لینے کی رپورٹس منظر عام پر آنے کے بعد وادی میں حالات معمول کے مطابق چلنے کی بھارتی جھوٹ کی قلعی عالمی سطح پر کھل گئی۔
ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق انسانی حقوق کی رہنماوں نے کہا ہے کہ پانچ اگست کو وادی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب تک تیرہ ہزار سے زائد کم عمر نوجوانوں کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
خواتینوں کی اس تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ حراست میں لئے گئے نوجوانوں میں چودہ سال کی عمر کے لڑکے بھی شامل ہیں اور ان کو پینتالیس دنوں کے لئے غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔
ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق کشمیریوں کی جانب سے اپنے بچوں کو آزاد کروانے کیلئے ساٹھ ہزار روپے کی ادائیگی طلب کی جاتی ہے۔
ادھر مقبوضہ وادی کی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ابھی تک زیرحراست نوجوانوں سے متعلق مرکزی اعدادوشمار موجود نہیں۔
دوسری جانب بھارتی فوج کے ترجمان نے نوجوانوں کی گرفتاری کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی خبریں صرف علیحدگی پسندوں کی جانب سے پھیلائی جارہی ہیں۔
بی جے پی کے ترجمان کرشنا ساگر راو نے کشمیری سیاستدانوں کو نظربند کرنے کی تصدیق کی ہے اور کہا کہ ایسا صرف ریاست میں استحکام برقرار رکھنے کیلئے کیا گیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ سیاستدان عوام کو بھڑکا کر افراتفری پھیلانے کی کوشش کررہے تھے۔