Aaj Logo

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2019 03:52pm

بل ادا کروگے تو ہی بچہ واپس ملے گا، اسپتال انتظامیہ

دبئی کے ایک مقامی اسپتال نے ایک لاکھ یورو (یعنی تقریباً ایک کروڑ 71 لاکھ پاکستانی روپے) کے میڈیکل بل کی ادائیگی تک نومولود بچی کو والدین کے حوالے کرنے سے انکار کردیا، امل نامی اس بچی کی پیدانش جولائی میں قبل از وقت ہوئی۔

محض 23 ہفتے کے قلیل عرصے میں جنم لینے والی اس بچی کا وزن پیدائش کے وقت ایک پاؤنڈ سے بھی کم تھا۔

اس نومولود بچی کے والدین 26 سالہ اظہر اور 23 سالہ سیدہ کو ماہرین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اگر اس بچی کو ابھی ڈلیور نہ کیا گیا تو اس کا زندہ رہنا بے حد مشکل ہوجائے گا، جس کے بعد والدین نے اپنی پہلی اولاد کی زندگی بچانے کیلئے اسے ڈلیور کرنے کا فیصلہ کیا۔

امل کے والدین دبئی کے ایک نجی اسپتال کے ماہر ڈاکٹر سے علاج کروا رہے تھے اور اس وجہ سے میڈیکل بِل بہت زیادہ بن گیا۔

اس حوالے سے امل کے والد اظہر کا کہنا ہے کہ میری اہلیہ کو اکتوبر میں بچے کو جنم دینا تھا مگر پیچیدگیوں کے باعث 14 جولائی کو ہی آپریشن کرنا پڑا۔

 پیدائش کے وقت اس نومولود بچی امل کا وزن محض 400 گرام تھا۔

بچی کے والدین اظہر اور سیدہ دراصل اسٹوڈنٹ ویزا پر دبئی میں موجود تھے، اسی دوران غیرمتوقع طور پر بچی کی پیدائش ہوئی اور اسی وجہ سے وہ اتنا بھاری بل ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

اسپتال انتظامیہ نے جب بچی کو والدین کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو اظہر نے اسپتال انتظامیہ سے کہا کہ میں نے حال ہی میں گریجویشن مکمل کیا ہے اور ابھی میں اتنا نہیں کماتا کہ یک مشت اس بل کی ادائیگی کرسکوں۔

اظہر نے انتظامیہ سے کہا کہ وہ اس بل کی ادائیگی قسطوں میں کریں گے تو اسپتال انتظامیہ نے انہیں صاف انکار کردیا۔

اسپتال انتظامیہ نے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس بل کو 12 مہینے کی قسطوں میں تقسیم کرسکتے ہیں اور انہیں 10 ہزار یورو سے زائد ماہانہ ادا کرنے ہوں گے، جس کے بعد ان کی فیملی نے ایک فنڈ ریزر قائم کیا ہے تاکہ وہ رقم اکٹھی کرکے اپنی بچی کو ساتھ لے جاسکیں۔

یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ جب تک بچی کی حالت مکمل درست ہوگی تب تک یہ بل 2 لاکھ یورو تک پہنچ سکتا ہے۔

والدین کی جانب سے بچی حوالگی کی درخواست پر اسپتال انتظامیہ نے قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دی ہے اور ڈاکٹر نے کہا ہے کہ جب تک بل کی مکمل ادائیگی نہیں ہوجاتی وہ اس بچی کو والدین کے حوالے نہیں کریں گے۔

بچی کی والدہ سیدہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی بچی کو گھر واپس لانے کیلئے شدید مدد کی ضرورت ہے۔

Read Comments