وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے تک مودی سرکار سے بات چیت کا امکان نہیں۔ وہ عالمی برادری کے انسانیت پر تجارت کو ترجیح دینے پر مایوس ہیں۔ پاکستان بھارت پر حملہ کرنے کی پہل نہیں کریگا۔
پریس کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے،اب دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ کشمیر کی صورتحال ابتر سے ابتر ہورہی ہے اور یہ ابتدا ہے۔ آج کشمیریوں کو لاک ڈاؤن ہوئے 50 روز گزر گئے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر میں مکمل طور پر بلیک آؤٹ ہے، انہوں نے نیو یارک میں کشمیریوں سے ملاقات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ ان کا اپنوں سے کوئی رابطہ نہیں، مقبوضہ وادی میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ڈائلسیز کے مریضوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے، ان کا یہاں آنے کا مقصد کشمیر کے معاملے کو اجاگر کرنا ہے، کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کی 11 قراردادیں ہیں، یہ قراردادیں کشمیریوں کو اپنی تقدیر کے انتخاب کا حق دیتی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے کشمیر کو چھاؤنی بنادیا ہے، یہ اپنے ہی آئین کے خلاف جارہے ہیں، کسی مقبوضہ جگہ کی جغرافیائی صورتحال تبدیل کرنا اقوام متحدہ کی قرادادوں کی خلاف ورزی ہے، جو کچھ کشمیر میں ہوتا ہے بھارت اس کا الزام پاکستان پر تھوپ دیتا ہے، بھارت میں آج ایک نسل پرست تنظیم کی حکمرانی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ مودی آر ایس ایس کا تاحیات رکن ہے، مودی نے گجرات میں خون ریزی کی، بھارت میں گزشتہ 6 برسوں میں ایک انتہاء پسند جماعت کی حکمرانی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کاکہنا تھا کہ انہوں نے بھارت سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، مودی کو کہا کہ غربت، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلی اہم معاملات ہیں لیکن ہماری تمام تر تجاویز کو مسترد کردیا گیا۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت نے ہمیں دیوالیہ کرنے کی کوشش کی، یہ لوگ مسلمانوں کو برابر کے شہری نہیں سمجھتے، 6 برس میں بھارت تبدیل ہوگیا ہے، انہوں نے عالمی رہنماوں سے ملاقات کا تذکرہ کیا اور کہاکہ انہوں نے ٹرمپ، بورس جانسن، مرکل، میکرون سے بات کی،یہ وقت ہے کہ دنیا ایکشن کرے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مودی الٹا ہمیں کہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو بھارت بھیجنا بند کرے، 80 لاکھ افراد کو 50 روز تک یرغمال بنانے سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہوگی، میں نے اقوام متحدہ سے کہا کہ یہ انکی ذمہ داری ہے، یہ ذمہ داری اقوام متحدہ پر بھی عائد ہوتی ہے، وہ نہیں جانتے کہ کرفیو ہٹے گا تو کیا ہوگا۔
صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ کشمیر سے جب تک کرفیو نہیں اٹھ جاتا اور آرٹیکل 370 بحال نہیں ہوجاتا بھارت سے بات چیت کا کوئی چانس نہیں، 5 اگست سے قبل پاکستان نے بات چیت کی ہر ممکن کوشش کی، اب بھارت سے بات چیت کا کیا فائدہ؟ دو ایٹمی قوتیں آمنے سامنے ہیں، کیا کسی تہذیب یافتہ معاشرے سے یہ توقع کی جاسکتی ہے جو بھارت نے کشمیر میں کیا، سلامتی کونسل نے جو کرنا ہے وہ اب کرنا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا میں بین الاقوامی برادری سے مایوس ہوا ہوں کیونکہ اگر 8 ملین یورپی یا 8 ملین یہودیوں یا 8 امریکی اسطرح محصور ہوتے تو کیا رد عمل آتا؟ دنیا کہاں ہے؟ بین الاقوامی کمیونٹی کہاں ہے؟ دنیا کے قوانین کہاں ہیں؟ ایک بار کرفیو ہٹا تو جانے کیا ہوگا، اگر خونریزی ہوئی تو ورلڈ کمیونٹی ذمہ دار ہوگی، مایوسی ہوئی کہ کس طرح ورلڈ کمیونٹی خاموش ہے جبکہ 80 لاکھ افراد کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہورہا ہے، یہ لوگ خاموش اس لیے ہیں کہ انہیں بڑی مارکیٹ نظرآرہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ کرفیو ہٹنے پر مجھے کشمیر میں خونریزی کا خدشہ ہے، بھارت کشمیروں کو قید کر کے کہتا ہے یہ ان کی ترقی کے لیے ہے، بوسنیا میں بھی مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو دنیا خاموش تھی، کشمیر کا معاملہ مارکیٹ اور معیشت سے بہت بڑا ہے، کشمیریوں کو اب موت کا خوف نہیں رہا ہے، کشمیریوں نے غلامی میں رہنے کے بجائے آزادی کے لیے لڑیں گے، کشمیریوں کو اب کوئی نہیں روک سکتا، مجھے مایوسی اس بات پر ہوئی کہ ممالک اپنی معیشت کی خاطر بحرانوں کو جنم دیتے ہیں، منی لانڈرنگ سے امیر ممالک کو فائدہ ہوتا ہے وہ اس کے خلاف بھی کارروائی نہیں کرتے۔
وزیر اعظم نے ترک صدر رجب طیب اردوان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کو سراہا۔ عمران خان نے کہا کہ ترک صدر کا کشمیر پر بیان دینا خوش آئند ہے، آئندہ ماہ او آئی سی کی میٹنگ ہے، ہم مسلمان ممالک کو کشمیر کی صورتحال پر جمع کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے مجھ سے کہا کہ ایران سے بات کروں اور صدر ٹرمپ نے بھی کہا کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اس لیے میں نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں اس حوالے سے بات کی ہے لیکن میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ بتاسکتا، کوشش ہے کہ معاملات بات چیت سے حل ہوں۔
افغانستان میں قیام امن سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ افغانستان کا کوئی ملٹری حل نہیں ہے، ہم کوشش کررہے ہیں کہ امریکا اور طالبان میں بات چیت دوبارہ شروع ہوجائے، ایک مرتبہ امن ڈیل سائن ہوگئی تو طالبان سے مل کر انہیں افغان حکومت سے بات چیت پر راضی کروں گا۔