پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں پر کشیدگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ۔ لیکن بھارت نے اس اقدام سے قبل حیرت انگیز طور پر وہاں پر نہ صرف اپنی فوج میں بڑی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ لاک ڈاون کے بعد کئی کشمیری رہنماوں اور سرگرم کارکنان کو حراست میں لے لیا گیا اور کئی کو گھروں میں قابض فوج کی جانب سے نظر بند کردیا گیا۔
ایسے میں برطانوی ادارے بی بی سی نے مقبوضہ کشمیر میں بعض ایسی کشمیری فیملیوں سے بات چیت کی ہے، جن کو بھارتی قابض فوج کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم ان کشمیریوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بات چیت کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔
ایک کشمیری شخص جس کو بھارتی فوج نے اسکے سولہ سالہ بیٹے کے ہمراہ حراست میں لے لیا تھا،اس نے انٹرویو بی بی سی کو دیتے ہوئے بتایا کہ بھارتی فوج نے حراست کے دوران اسکو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ بار بار اس بات پر اصرار کرتے اور پوچھتے تھے کہ تم ہم پر پتھراو کرتے ہو اور طنزیہ کہتے کہ تمہیں آزادی چاہیئے۔
اس شخص کو اپنے بیٹے کے ہمراہ بھارتی قابض فوج نے حراست میں لیا تھا اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسکا بچہ بھی نفسیاتی طور پر اس حراست سے متاثر ہوا ہے۔
اسکے لڑکا نے بتایا کہ کس طرح اب بھی اسکو اندھیرا ہوتے ہی ڈر لگنے لگتا ہے اور وہ گھر میں رہنے کو ترجیح دیتا کہ کہیں قابض بھارتی فوجی اسکو پھر اٹھا کر نہ لے جائیں۔
اسہی طرح ایک کشمیری خاتون نے بتایا کہ کس طرح اسکے شوہر کو بھارتی قابض فوج نے حراست میں لے کر اسکے نوجوان بیٹے سے تبادلے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
تاہم بھارتی فوج دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات اس صورت میں کریگی جب ان انٹرویو دینے والوں کی شناخت سے متعلق آگاہی دی جائے۔
مقبوضہ وادی میں بھارتی کریک ڈاون کو ہفتوں ہونے کے بعد کئی کشمیریوں کو ڈر ہے کہ کبھی بھی بھارتی قابض فوج کا اگلا شکار انکے بچے ہوسکتے ہیں۔
Source: BBC