کراچی: بچوں کے مسلسل اغوا اور قتل پر جمہوری طاقتوں کی بے حسی نے قوم کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کردیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مسلسل ناکامیاں، کیس میں دلچسپی لینے کیلئے رشوت کا مطالبہ اور مجرموں کی پشت پناہی نے پورے نظام کو دیمک زدہ کردیا ہے۔
عوام کے دلوں میں خوف پیدا ہوچکا ہے، لوگوں نے ڈر کے مارے اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکالنا چھوڑدیا ہے۔ باہر گئے کسی کم سن بچے کو ذرا سی دیر ہو جائے تو والدین کو غشی کے دورے پڑنےلگتے ہیں۔
جمہوریت کے اس دور میں جمہوری اقدار کو پسند کرنے والی سول سوسائٹی، سیاستدان اور میڈیا ہاؤس جہاں آمریت کے دور کو سوچ کر اس طرح کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں، جیسے آمریت قیامت سے بھی زیادہ خوفناک کسی شے کا نام ہے۔ وہیں اسی طبقے کے کچھ لوگ اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ دور آمریت میں جرائم پیشہ عناصر کےخلاف کچھ ایسی مثالیں قائم کی گئیں جو آنے والی جمہوری حکومتوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی تھیں۔
ایسا ہی واقعہ سابق صدر جنرل (ر) ضیاء الحق کے دور میں پیش آیا۔ 1981 کا واقعہ ہے، پپو نام کے ایک بچے کے ساتھ بدفعلی کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ جلد ہی پپو کے مجرموں کو گرفتار کرکے سرعام پھانسی دے دی گئی اور ان کی لاشیں شام تک رسوں سے لٹکتی رہیں۔ اس واقعے کے دس سال بعد تک بچوں سے بدفعلی کا کوئی بھی واقعہ لاہور میں پیش نہیں آیا۔
لیکن پھر جمہوریت کا سنہرا دور شروع ہوا۔ لوگوں نے جمہوریت کے دودھ کی نہروں میں تیراکی کی اور جمہوریت کے شہد میں غوطے کھانا شروع کردئیے۔ اب حالت یہ ہے کہ صرف ایک قصور شہر میں بچوں سے زیادتی اور قتل کی ایسی اندوہناک داستانیں رقم کی جا رہی ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔