ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے خطے میں جنگ کے خدشات کو بڑھا گیا۔ ایران نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب یا امریکا کی جانب سے فوجی کارروائی کی گئی تو سعودی عرب کو آخری امریکی فوجی تک یہ جنگ لڑنی پڑے گی۔
جواد ظریف نے امریکی چینل سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ ایران ہمیشہ تنازعے سے گریز کا خواہش مند رہاہے۔ انہوں نے سعودی عرب اور اور امارات سے بات چیت پر بھی رضامندی کا اظہار کیا ۔
تاہم انہوں نے امریکا سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کیا اور کہا کہ جب تک امریکا دوہزار پندرہ کی جوہری معاہدے کے تحت تمام معاشی پابندیوں کا خاتمہ نہیں کردیتا اس سے مذاکرات ممکن نہیں ہے۔
اس موقعے پر پھر ایران نے سعودی آئل تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی اور کہا کہ یمنی حوثی باغی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرچکے ہیں، اور اب یہ آئل تنصیبات طرز کے حساس آپریشن کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس موقعے پر وہ یمنی حوثیوں کے ان حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش نہ کرسکے۔
امریکی اور سعودی حکام متعدد مرتبہ حوثیوں باغیوں کے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کررہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس میں ایران مبینہ طور پر ملوث ہے۔
اس سے قبل سعودی وزارت دفاع نے حملوں میں استعمال ہونے والے ڈرونز اور میزائلوں کا ملبہ میڈیا کے سامنے پیش کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ اسکا اسپانسر ایران ہے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میزائل یمن کی جانب سے فائر نہیں کیے گئے ہیں ۔
ایک ٹوئیٹ میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے پینٹاگون کو اس حملے کا ردعمل دینے کی ہدایت کردی ہے اور امریکا مکمل طور پر جواب کیلئے تیار ہے تاہم ابھی سعودی حکمرانوں کی جانب سے آئندہ کے لائحہ عمل کا منتظر ہے۔
Source: CNN