ملتان: بیوٹی پارلر میں بچی سے غیراخلاقی حرکات کروانے کا واقعہ سامنے آیا ہے۔ اسی حوالے سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں کم سن بچی جو رابعہ نامی خاتون کے گھر کام کرتی ہے، اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان سنا رہی ہے۔
ملتان سے سامنے آنے والے اس کیس میں بچی کا کہنا ہے کہ میری مالکن اپنے بیوٹی پارلر میں مجھے غلط کام کرنے پر مجبور کرتی تھی،بچی نے خاتون پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ گندے کام کرنے میں وہ خود ملوث ہے اور مجھے اپنے ساتھ ہی ایسے کام کرنے پر مجبور کرتی تھی، جس کے بعد میں وہاں سے بھاگ آئی۔
بچی کا کہنا ہے کہ رابعہ نامی خاتون کے والدین اور بھائی بہت اچھے ہیں لیکن یہ اپنے بیوٹی پارلر میں مجھ سے اپنے ساتھ نازیبا حرکات کروا کر ویڈیوز بناتی تھی اور اپنے شوہر کو دکھاتی تھی۔
اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ کچھ ماہ قبل کا ہے، پنجاب پولیس کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی طرف سے جاری ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بچی کے بیان کے مطابق اس واقعہ کی ایف آئی آرنمبر 610 بتاریخ 28 اگست درج کی جا چکی ہے اور ملزمہ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔
اس بچی کے بیان کے مطابق اس واقعہ کی ایف آئی آرنمبر 610 بتاریخ 28 اگست درج کی جا چکی ہے اور ملزمہ کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے ۔ https://t.co/4v8nuTdnoF
— Punjab Police Official (@OFFICIALDPRPP) September 16, 2019
جب کہ دوسری جانب بچی کی ویڈیو بنانے والے شخص پر بھی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ اگر یہ شخص اس بچی کی مدد کر رہا تھا اور اس پر ہونے والی ظلم کی داستان دنیا کو سنانا چاہتا تھا تو کم از کم اس کا چہرہ ہی چھپا لیتا جس سے بچی کی عزت محفوظ رہتی۔
واضح رہے کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی ایسی ہے جو اپنی دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔غربت سے تنگ آئے والدین مجبوراً اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی نوکری پر لگا دیتے ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو گھروں میں کام پر لگایا جاتا ہے۔ لیکن کیا ان گھروں میں یہ کم سن بچے بچیاں محفوظ ہوتے ہیں یا نہیں،یہ ایک سوال سب کے ذہنوں میں رہتا ہے۔
ماضی میں ہم نے کم سن ملازموں پر مالکان کی طرف سے بدترین تشدد کے کئی واقعات دیکھے۔جہاں پر گھروں میں کام کرنے والے کم سن ملازمین کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہیں ان ملازمین کے ساتھ زیادتی کے بھی کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔لیکن ملزمان بااثر ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہوتے ہیں اور یہ جرم جاری رہتا ہے۔