امریکا نے سعودی تیل تنصیبات پر حملے میں ایران کے ملوث ہونے کے دعوے کے ثبوت میں کچھ سیٹلائٹ تصاویر اور خفیہ معلومات جاری کی ہیں۔
سعودی عرب میں بقیق اور خریص کے علاقوں میں سعودی تیل کمپنی 'آرامکو' کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں میں دنیا میں تیل صاف کرنے کا سب سے بڑا کارخانہ بھی متاثر ہوا ہے۔
اس واقعے کے بعد عالمی سطح پر تیل کی سپلائی میں پانچ فیصد کمی آئی ہے جبکہ تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ہفتے کے روز ہونے والے ان حملوں کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی جبکہ ایران ان میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔
تاہم اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر امریکی حکام نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ان حملوں کی سمت اور حد دیکھنے کے بعد ان کے پیچھے حوثی باغیوں کا ہاتھ ہونے پر شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔
نیویارک ٹائمز سے بات کرنے والے امریکی حکام کا کہنا تھا کہ بقیق میں تیل صاف کرنے کے کارخانے اور خریض میں تیل کے کنووں پر ہونے والے ان حملوں میں ڈرونز اور میزائلوں کا استعمال کیا گیا تاہم سب اپنے نشانے پر نہیں لگے۔
ایک اہلکار کے مطابق ان مقامات پر 19 اہداف کو نشانہ بنایا گیا اور یہ حملے مغرب اور شمال مغرب سے کیے گئے جبکہ یمن سعودی عرب کے جنوب میں واقع ہے۔
یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے باوجود امریکی حکام نے ایران کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اتوار کو ایک ٹویٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا کہ امریکا جانتا ہے کہ مجرم کون ہے اور وہ ان حملوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہیں لیکن وہ سعودیوں سے یہ سننے کے منتظر ہیں کہ اس حملے کے پیچھے کون ملوث تھا اور وہ کس طرح آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ایران کی جانب سے امریکا کے تازہ الزامات پر ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف پہلے ہی امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے اس الزام کو ’صریحاً دھوکے بازی‘ قرار دے چکے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے تہران کا ہاتھ تھا۔
سعودی عرب میں سنیچر کو تیل کی تنصیبات پر حملوں کا اثر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر دیکھنے میں آیا ہے اور پیر کو بازار کھلتے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گذشتہ چار ماہ کی بلند ترین سطح کو جا پہنچی۔
سعودی تنصیبات کے مکمل طور پر بحال ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں اور ان حملوں کی وجہ سے تیل کی عالمی رسد میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی آ گئی ہے۔
پیر کو عالمی منڈی میں کاروبار کے آغاز پر ہی خام تیل کے بیرل کی قیمت میں 19 فیصد اضافہ ہوا اور وہ 71.95 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی تھی۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمت کا دوسرا اہم پیمانہ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کی قیمت میں 15 فیصد اضافہ ہوا اور وہ 63.34 ڈالر تک پہنچ گئی۔
تاہم بعد میں صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی ذخائر سے تیل جاری کرنے پر قیمت میں تھوڑی کمی آئی تاہم اب بھی اس میں دس فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ 66.28 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکی ہے۔ بلوم برگ کے مطابق ایک دن کے کاروبار میں یہ 1988 کے بعد ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
سعودی کمپنی آرامکو کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں پیداوار میں 5.7 ملین بیرل روزانہ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ یاد رہے کہ یہ واقعات ایک ایسے وقت پیش آ رہے ہیں جب آرامکو خود کو سٹاک مارکیٹ میں متعارف کروانے والی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی لسٹنگ ہوگی۔
ان حملوں کی ٹی وی پر نشر ہونے والی ویڈیو میں بقیق میں ڈرون حملے کے بعد آرامکو کے تیل کے دنیا کے سب سے بڑے پراسیسنگ پلانٹ پر لگی آگ کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ خریص میں دوسرے حملے سے بھی کافی نقصان ہوا ہے۔
سعودیوں نے ان حملوں کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم انھوں نے تیل کی پیداوار سے متعلق چند اشارے دئیے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیرِ توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان کا کہنا تھا کہ ذخیرہ اندوز کیے گئے تیل کا استعمال کرتے ہوئے پیداوار میں کمی کا کچھ ازالہ کیا جا سکے گا۔
یاد رہے سعودی عرب دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو سات لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ تیل برآمد کرتا ہے۔
لندن میں انٹرفیکس انرجی کے تجزیہ کار ابھیشیک کمار کے مطابق ’سعودی حکام نے آگ پر قابو پانے کا دعوی کیا ہے، لیکن یہ معاملہ آگ بجھائے جانے سے کہیں دور ہے۔ عقیق اور خوریص میں تیل تنصیبات کو پہنچنے والا نقصان بہت بڑے پیمانے کا ہے اور تیل کی فراہمی کو معمول پر لائے جانے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔‘
توقع کی جارہی ہے کہ برآمدات کو معمول کے مطابق جاری رکھنے کے لیے رواں ہفتے سعودی عرب اپنے ذخیرہ شدہ تیل کا استعمال کرے گا۔
تاہم نیو یارک میں آر بی سی کیپیٹل مارکیٹس میں انرجی سٹرٹیجی کے منیجنگ ڈائریکٹر مائیکل ٹران کا کہنا تھا ’اگر تیل کی برآمدات معمول پر آ بھی جاتی ہے تو عالمی سطح پر تیل کی تقریبا چھ فیصد پیداوار کو نظرانداز کرنے کا خطرہ اب کوئی قیاس آرائی نہیں رہی۔
Source: BBC Urdu