عالمی میڈیا بھی مودی سرکار کے مقبوضہ کشمیر میں اقدام کے خلاف بول پڑا ، معروف جریدے فنانشل ٹائمز میں شائع اپنے مضمون میں صحافی ایمی کازم نے مودی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں اقدام کو کشمیریوں کیلئے تاریخ کا سیاہ ترین وقت قرار دیا ہے۔ مودی نے آرٹیکل تھری سیونٹی کے خاتمے کو کشمیریوں کیلئے ترقی کا نیا سورج قرار دیا تھا۔
اپنے مضمون میں ایمی کازم نے کہا کہ دو ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کےبعد اگرچہ کہ کشمیری خاموش ہیں اور مقبوضہ وادی میں نہ صرف ذرائع مواصلات بند ہیں بلکہ شہری کے نقل و حمل کو بھی انتہائی محدود کردیا گیا ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں رہنماوں اور دو وزراء کو حراست میں لینے کا بھی مضمون میں تذکرہ کیا ۔
اپنے مضمون میں مصنف میں لکھا کہ اگرچہ کہ دہلی کی جانب سے اصرار ہے کہ یہ اقدام کشمیری عوام کے طیش کو قابو میں رکھنے کیلئے کیا گیا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں جو کہ خطرناک تشدد کا سبب بن سکتے ہیں ۔مصنف نے مودی سرکار کے اقدام کو خطرناک جوا قرار دیا اور کہا کہ بھارتی حکومت کا کشمیریوں کو خاموش رکھنے کے یہ اقدامات اشارہ دیتے ہیں کہ نئی دہلی کو مظلوم کشمیریوں سے کسی بھی قسم کی ہمدردی نہیں ہے۔
مصنف نے آرٹیکل تھری سیونٹی کے خاتمے کے بعد بھارتی اقدامات اور کشمیریوں کے صدمے اور انسانی حقوق کی پامالی کی عدم واقفیت کو نئی دہلی کی کوتاہ اندیشی قرار دیا۔
ایمی کازم کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین پر پالیٹ گنز کا استعمال کیا گیا ہے ، اگرچہ کہ گزشتہ دہائی کے دوران مقبوضہ کشمیر میں تشدد میں کمی کے باوجود عام کشمیری بھارت سے الحاق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کیونکہ وہ بھارتی ریاست کو ایک فوجی سمجھتے ہیں جوکہ ہر وقت کشمیریوں کو شکوک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
ایمی نے مضمون میں مزید لکھا کہ مودی سرکار نے خود کو مختلف ظاہر کرتے ہوئے الیکشن میں فتح کیلئے کشمیریوں سے مزید روزگار اور تعلیمی اداروں کے وعدے کیے لیکن اب انہوں نے کشمیریوں کی صورتحال ان مقامی رہنماوں اور جماعتوں کو ہی قرار دے دیا ہے جوکہ انتخابی سیاست میں حصہ لیتی رہی ہیں ۔
مصنف نے مزید لکھا کہ مودی حکومت نے کشمیری رہنماوں کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے کشمیری عوام کے سامنے خود کو ایک مسیحا پیش کرتے ہوئے ایک نئی اور شفاف سیاسی کلاس وہاں پر بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ مودی سرکار سمجھتی ہے کہ کشمیری اب تنازعات سے تھک چکے ہیں اور وہ اس ازسرنو آغاز کو تسلیم کرلیں گے لیکن بغیر کسی پر خلوص کوشش کے یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسا ہوگا کیونکہ مقبوضہ وادی میں تسلسل کے ساتھ لاک ڈاون کے باعث ان کے ذہن یا پھر غصے کو دھندلانا ممکن نہیں۔
Source: Financial Times