مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدام کیخلاف بھارتی دانشور اور صحافی بھی مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنانے لگ گئے ، جموں اور کشمیر میں آرٹیکل تین سو ستر کے خاتمے کے بعد بھارت کی جانب سے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار پر سوالات اٹھارہے ہیں ۔
بھارتی صحافی کی جانب سے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ایک مضمون میں لکھا گیا ہے کہ برطانیہ سے آزادی کے بعد بھارت نے مسلمانوں ، سکھ اور عیسائیوں کو برابری کے حقوق مہیا کرنے کے اصول کی پاسداری کی تھی تاہم انیس سو چونسٹھ کے بعد سے مسلمانوں اور ہندووں میں فسادات وقتا فوقتا جاری رہے ہیں ۔
مضمون میں بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر سےمتعلق سخت اور متعصب رویئے کا تذکرہ بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ بھارتی سرکار کا رویہ وہاں پر مسلم اکثریت ہونے کی بناء پر ہے۔ مضمون میں بی جے پی کی جانب سے بھارت کو ہندو ریاست کے طور پر بنانے کے معاملہ کو بھی اٹھایا گیا۔
مضمون میں بھارت کو طنزیہ طور پر الیکشن سے متعلقہ جمہوریت قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ بھارت ایک ایسی جمہوریت بن گیا ہے جہاں پر الیکشن جیتنے کے بعد سیاسی جماعتیں خود کو محاسبے سے مبرا سمجھتی ہیں ۔
مضمون میں بھارت کے تنزلی کا شکار اداروں کے ڈھانچے کا حوالہ دیا گیا۔ اور کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی سرکار کے اقدام کے بعد سے کئی چینلز ، نیوز ایجنسیز کو مختلف ہتھکنڈوں سے دھمکانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مضمون میں مصنف کا موقف ہے کہ بھارت جو کہ کبھی ایک معجزاتی جمہوریت ہوا کرتا تھا اب وہاں پر جمہوری اقدار کی تنزلی کے بعد بھارت کی قدر کو مزید کم کیے جانے کی ضرورت ہے۔
اس سے پہلے ایک سماجی کارکنوں کے وفد کو بھارتی پریس کلب میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تصاویر اور ویڈیوز بھی دکھانے نہیں دی گئی تھیں ۔ جس پر مودی حکومت کو بھی تنقید کا سامنا ہے جبکہ سری نگر میں امن کے جھوٹے دعوے کے بعد اب مودی حکومت پر مقبوضہ وادی میں کرفیو ہٹانے اور وہاں پر ذرائع مواصلات کی بحالی کیلئے دباو میں بھی بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔
Source: washington post