مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم جاری ہیں، ساتویں روز بھی کرفیو اور پابندیاں ہیں۔ کشمیری عوام پر زندگی تنگ کردی گئی۔ اشیائے خور و نوش کی قلت ہے، بچے بھوک سے تڑپ رہے ہیں، ادویات بھی میسر نہیں، میڈیا بلیک آؤٹ ہے، حریت قیادت نظر بند ہے۔ لیکن کشمیریوں حوصلے بلند ہیں۔
مودی سرکار کی ڈھٹائی بھی برقرار ہے، انٹرنیٹ، موبائل اور لینڈ لائن سروس بدستور بند ہے۔ مقبوضہ علاقے کا بیرونی دنیا سے رابطہ تاحال منقطع ہے۔
سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت تقریباً تمام حریت رہنما نظر بند اور گرفتار ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ایک بوڑھی ماں کا کہنا ہے کہ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے، کشمیری نوجوان نے اپنی گود کے بیٹے کو مجاہد بنانے کا اعلان کردیا، کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کی جنگ کیلئے کٹ مرنے کو تیار ہے، کشمیری عوام شدید غصے میں ہیں، نوجوان رضوان کا کہنا ہے کہ بھارت کے خلاف مظاہروں میں اب ہر کشمیری شرکت کرے گا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کشمیریوں کے دل میں لاوا پک رہا ہے، بزرگ کشمیری کا کہنا تھا کہ بھارت نے بدمعاشی کی حد کی ہوئی ہے۔
بھارتی پولیس اہلکار کے سامنے ایک نوجوان نے بھارت کے خلاف اسلحہ اٹھانے کا اعلان کردیا اور کہا کہ وہ اپنے گود کے بچے کو بھی بندوق اٹھانے کیلیے تیار کرے گا۔
رضوان ملک کا کہنا ہے کہ کشمیر اب ایک جیل کی طرح محسوس ہوتا ہے، ایک بڑا اوپن ایئر جیل، بھارت نے ہماری شناخت چھین لی جو ناقابل قبول ہے، محاصرہ ختم ہوگا تو اب ہر کشمیری احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوگا۔
ہائی اسکول کی طالبہ مسکان لطیف نے کہا موجودہ صورتحال طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے، سونامی ساحل سے ٹکرانے والا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹر گیتا پانڈے کہتی ہیں کشمیر ابل رہا ہے، انھوں نے کشمیری عوام کا اتنا شدید غصے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔