بارہ مولہ کے ایک ہوٹل میں ملازمت کرنے والے 27 سالہ سجاد نے مزید کہا: ’میں نے آخری بار اخبار پانچ دن پہلے پڑھا تھا۔ مجھے نئی دہلی کے ٹی وی چینلوں پر چلنے والی خبروں پر بھروسہ نہیں۔ یہاں کوئی جشن نہیں ہو رہا۔ ہم خوش نہیں ہیں۔‘ دوسری جانب دہلی سے آنے والے اپنے بیٹے کی منتظر ایک کشمیری ماں نے دُہائی دی: ’کشمیر میں لینڈ لائن، موبائل سب بند ہے۔ کیا اس طرح یہ کشمیریوں کے جذبات دبا دیں گے؟ اس سے بہتر ہے ہم کشمیریوں کو ایک ہی بار مار دیں۔ علاقے میں کرفیو لگا ہے اور ہم اپنے گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے۔ گھر میں بچوں کے لیے دودھ نہیں ہے۔ کھانے کے لیے سبزی نہیں ہے۔ خدارا کشمیر کے لیے کچھ کریں۔‘ بھارت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں پانچ روز سے کرفیو نافذ ہے، جس میں پولیس کی جانب سے نمازِ جمعہ کے اوقات میں نرمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ سری نگر کی گلیوں میں ہزاروں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکار ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے موجود ہیں۔ دکانیں بند پڑی ہیں اور راستوں کو خار دار تاروں اور رکاوٹوں سے بند کر دیا گیا ہے۔ ایک گھمبیر خاموشی کے دوران کبھی کبھی فوجی گاڑیوں یا کوؤں کی آواز اس سکوت کو توڑتی رہتی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پانچ دن سے جاری اس مکمل لاک ڈاؤن کے دوران شاپنگ مالز، پرچون کی دکانیں یہاں تک کے شفاخانے بھی بند ہیں۔ گذشتہ لاک ڈاؤنز کے دوران رات کے کسی پہر نرمی کے باعث لوگوں کو ضروری اشیا خریدنے کے لیے گھروں سے نکلنے کی اجازت ہوتی تھی لیکن اس بار ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس مرتبہ لوگوں نے ہفتوں کا سامان پہلے ہی اکٹھا کر لیا تھا۔ ایسا عموماً سخت سردیوں کے دنوں میں کیا جاتا تھا۔ 32 سالہ رضا میر سری نگر کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’میں نے ایک زور دار دھماکے کی آواز سن کر دروازہ کھولا تو میری اہلیہ رابعہ دروازے پر گری ہوئی تھی اور اس کے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا۔‘ رضا کے مطابق ان کی اہلیہ رابعہ سوموار کو ممکنہ لاک ڈاؤن کا اعلان سن کر سبزی لینے گھر سے نکلی تھیں۔ رابعہ نے بتایا: ’میں جیسے ہی گھر سے باہر نکلی، باہر موجود فوجیوں نے میری سمت گولی چلا دی۔‘ جس وقت رابعہ یہ بتا رہی تھیں ان کا دو سالہ بچہ مسلسل رو رہا تھا۔ وسطی کشمیر سے تعلق رکھنے والی روبینہ محراج جو سری نگر کے ایک ہسپتال میں ڈلیوری کے بعد داخل ہیں، نے بتایا:’جب میں ایمبولینس میں سری نگر کی جانب سے سفر کر رہی تھی تو ہمیں راستے میں بار بار چیک پوائنٹس پر روکا گیا، میں نے اپنے بچے کو ایمبولینس میں ہی جنم دیا۔‘ ہسپتال کے باہر لوگ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں سے ملنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 57 سالہ استاد مقبول محمد پتھریلی گلیوں میں سے گزرتے ہوئے اپنے بیمار بھائی کو دیکھنے کے لیے جا رہے ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے انہیں واپس جانے کی ہدایت کی ہے۔ مقبول نے افسردہ انداز میں بتایا: ’میں نے اپنے کینسر کے شکار بھائی کو چار دن سے نہیں دیکھا۔ وہ دوسرے محلے میں رہتے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔‘ سڑک کنارے موجود لوگوں میں سے ایک کو کہتے سنا گیا: ’بھارت نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ اب لڑنے کا وقت آچکا ہے۔‘ لوگوں میں اس حوالے سے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ شہری ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں آسکے اور وہ اب تک اس بارے میں ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں بات کرتے ہیں۔ کئی لوگوں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے حکام کی جانب سے ردعمل کے ڈر سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کی۔ بہت سے کشمیریوں کے مطابق بھارت کا یہ فیصلہ ’کشمیر کی شناخت پر حملہ‘ ہے۔ کشمیر کے ایک رہائشی بشیر احمد نے کہا: ’ایک بار پابندی ختم ہوجائے تو لوگ سڑکوں پر نکلیں گے۔ یہ ایک پریشر ککر کی طرح ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔‘ اسی قسم کے جذبات کا اظہار سری نگر کے بہت سے نوجوانوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ 21 سالہ بلال راہی کے مطابق یہ صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے۔ کشمیر کے کئی علاقوں میں اجتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن حکام کی جانب سے ان کی تصدیق نہیں کی جا رہی۔ شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے عہدیداروں نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ حکام کی جانب سے انہیں صحافیوں کو کسی قسم کی کوئی بھی معلومات دینے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتال میں 50 لوگوں کو علاج کے لیے لایا گیا ہے جن کو پیلٹ گن سے زخمی کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کے مطابق ان میں سے 13 لوگوں کی آنکھیں متاثر ہوئی تھیں۔ پیلیٹ گن کا استعمال بھارتی فوج کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ ریاض احمد بھی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ ان کی بائیں آنکھ میں پیلٹ گن سے بننے والا زخم صاف نظر آرہا ہے۔ 22 سالہ ریاض کا کہنا ہے کہ سری نگر میں احتجاج کے دوران بھارتی فوجیوں کی جانب سے ان پر پیلٹ گن کے راؤنڈز فائر کیے گئے۔ وہ کہتے ہیں: ’جب مجھے پیلٹ گن کے چھرے لگے تو ہر سمیت اندھیرا چھا گیا۔ میں نہیں جانتا کون مجھے ہسپتال لایا ہے۔‘ ریاض احمد کے دوست سجاد وانی کا کہنا ہے: ’جب ہم ریاض کو سائیکل پر ہسپتال لا رہے تو فوجیوں نے ہمیں راستے میں روک کر مارا پیٹا۔ انہوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا۔‘ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ریاض کی آنکھ سے پیلٹ کے چھرے نکالنے کے لیے شاید ان کا آپریشن کرنا پڑے۔ حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن میں زخمی ہونے والوں کے کوئی اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے۔ کھڑکی سے جھانکتی ایک ادھیڑ عمر خاتون نے رپورٹرز کے ایک گروپ سے اپنے خاندان کے ایک بیمار شخص کو ڈھونڈنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا: ’ہمارا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔‘ ان کی جانب سے نام بتانے سے پہلے ہی فوجیوں نے رپورٹروں کو اس جگہ سے آگے بڑھنے کو کہہ دیا۔ ایک احتجاج کرتے نوجوان نے، جس نے اپنا چہرہ ایک نقاب میں چھپا رکھا تھا، نے کہا: ’اگر بھارت ہمیں عید پر اکٹھا ہونے دے تو وہ دیکھے گا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم جدوجہد کیے بغیر نہیں رہیں گے۔‘ بھارتی وزیر اعظم مودی نے گذشتہ روز اپنے خطاب میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ علاقے میں جاری دہشت گردی کو روکنے کے لیے ضروری تھا۔انہوں نے اپنی حکومت کے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے۔دوسری جانب پاکستان نے بھارت کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے نئی دہلی سے تجارتی تعلقات ختم کرنے اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں پاکستان اور بھارت پر کشیدگی کم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘ انہوں نے دونوں اطراف سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ سری نگر سے ایک ماں کی دُہائی#Kashmir — Independent Urdu (@indyurdu) August 9, 2019 Source: Independent Urdu
مزید: https://t.co/rc1RbFwCqipic.twitter.com/PGHVJNprAP