لندن: زندگی کا پانسہ پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کسی دور میں ایم کیو ایم کا کراچی میں طوطی بولتا تھا اور ان کی اجازت کے بغیر پتا بھی حرکت نہیں کرتا تھا۔ مگر آج اسی ایم کیو ایم کے تین چار ٹکڑے ہو چکے ہیں اور ان کے وہ نوجوان لیڈران آج دکھائی تک نہیں دیتے جو کسی دور میں طاقت کا نشان ہوا کرتے تھے۔
ایم کیو ایم کے سینئر رہنماﺅں میں ایک عمران فاروق بھی تھے جنہیں لندن میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کا کیس اور قاتل آج تک معمہ بنے ہوئے ہیں مگر عبرت کی بات یہ ہے کہ ان کی بیوہ اور بچے آج در در بھٹک رہے اور پائی پائی کو محتاج ہیں۔
کسی دور میں عمران فاروق ایم کیو ایم کا نام تھا اور آج ان کی اہلیہ اور بچوں کو مکان مالک گھر سے دھکے دے کر نکال رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے لیڈر کے بچوں کا خیال خود ایم کیو ایم کے موجودہ رہنماﺅں کو بھی نہیں ہے۔ نجی ٹی وی چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کے سابق مرکزی رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ شمائلہ فاروق اور ان کے 2 بیٹے عالی شان اور وجدان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور شمائلہ بے گھری کے خطرے سے بھی دوچار ہیں، کیونکہ ان کے فلیٹ کے مالک نے انہیں فلیٹ خالی کرنے کے نوٹس دے رکھے ہیں۔
شمائلہ فاروق نہ صرف شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں بلکہ وہ کئی ماہ سے مکان تلاش کررہی ہیں اور کوئی انہیں مکان کرائے پر دینے کو تیار نہیں۔ شمائلہ فاروق نومبر 2016 میں جبڑا ٹوٹ جانے کے باعث اسپتال میں داخل رہنے کے بعد بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوسکی ہیں اور اب سہارے کے بغیر چل بھی نہیں سکتیں۔ اس وقت وہ لندن کے پسماندہ علاقے میں ایک پیزا شاپ اور مکینک کی ورک شاپ کے اوپر ایک چھوٹے سے بوسیدہ فلیٹ میں مقیم ہیں، جب کہ شمائلہ فاروق صحت کے مسائل کی وجہ سے تقریباً مفلوج ہوگئی ہیں۔
50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں ان کی رہائش گاہ کے باہر قتل کیا گیا تھا اور ان کے قتل کا مقدمہ پاکستان میں بھی چل رہا ہے جب کہ لندن کی اسکاٹ لینڈ یارڈ اب تک ان کے قاتل پکڑنے میں ناکام ہے۔ ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبے میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
کیس میں محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جب کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت واقع ہو چکی ہے۔