مکہ مکرمہ: مسجد حرام کے اطراف بہت سے معتمرین ثواب کی امید پر کبوتروں کی ایک بڑی تعداد کو گندم کا دانہ ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ جیسے ہی اس مقدس شہر کی سرزمین پر پاؤں رکھتے ہیں تو کبوتروں کے جھنڈ لوگوں کا استقبال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
گردنوں کے نزدیک نیلے یا سبز مائل پروں والے یہ کبوتر خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ احرام کی حالت میں یا اس کے بغیر بھی کسی طور ان کا شکار جائز نہیں ہے۔ ان کے شکار یا قتل کرنے کی صورت میں فدیہ یا دم واجب آتا ہے۔
ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ مکہ مکرمہ کی جانب آتے ہیں اور پھر مہینے کے درمیان ایک مرتبہ پھر مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔
العریبیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کبوتروں کو نقصان پہنچانے کی حرمت اس امر سے وابسطہ ہے کہ یہ اُن کبوتروں کی نسل سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دروازے پر گھونسلے بنا ڈالے تھے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حرم مکی کے کبوتروں کی نسل کا تعلق اُن ابابیل پرندوں سے ہے جو سمندر کی جانب سے آئے تھے اور انہوں نے اپنے پنجوں میں پتھر اور کنکر تھام رکھے تھے تاکہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادے سے آنے والے یمن کے بادشاہ ابرہہ الاشرم کو باز رکھا جائے۔
اس حوالے سے ایک تیسری روایت میں مشہور طوفان کی کہانی بھی ملتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام نے اس پرندے کو زمین اور اس کی خشکی کو دریافت کرنے کے واسطے استعمال کیا تھا۔ اس طرح یہ پرندہ دنیا بھر میں امن کا عنوان بن گیا۔