کراچی: 3 مارچ 2016 کو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو اہم کامیابی اس وقت ملی جب بلوچستان سے ایک بھارتی جاسوس گرفتار ہوا جو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر نکلا۔
کلبھوشن نے گرفتاری کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات سے لیکر تخریب کاروں کی فنڈنگ تک تمام الزامات کا اعتراف بھی کیا۔
پاک فوج کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے کلبھوشن یادیو کا ٹرائل ہوا اور 10 اپریل 2017 کو جرم ثابت ہونے پر بھارتی جاسوس کو سزائے موت سنائی گئی۔
25 دسمبر 2017 کو پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کلبھوشن یادیو سے اس کی والدہ اور اہلیہ کی ملاقات بھی کرائی۔
دوسری جانب بھارت اپنے جاسوس کا اعترافی بیان اور شواہد کی تردید کرتا رہا اور 8 مئی 2017 کو اس نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرکے کلبھوشن یادیو کی سزا پر عمل درآمد روک کر اس کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف کے صدر نے پاکستان اور بھارت کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے بھارتی درخواست 15 مئی کو ابتدائی سماعت کیلئے مقرر کردی۔
پہلی سماعت پر بھارتی وکلاء نے کلبھوشن یادیو کی سزا رکوانے کیلئے دلائل دیے۔ پاکستانی وکلاء نے بھارتی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کے اعتراف سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا۔
18 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے بھارتی درخواست کے حتمی فیصلے تک کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پرعمل درآمد روک دیا۔
13 جون 2017 کو کیس باقاعدہ سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے عدالت نے بھارت اور پاکستان کو 13 ستمبر 2017 تک تحریری گزارشات جمع کرانے کا وقت دیا۔
تحریری گزارشات کے جائزے کے بعد عدالت نے بھارت کو 17 اپریل 2018 اور پاکستان کو 17 جولائی 2018 تک تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت کی۔
کیس کی میرٹ پر باقاعدہ سماعت 18 فروری 2019 سے 21 فروری 2019 تک ہوئی۔ 18 فروری کو ہریش سالوے کی سربراہی میں بھارتی وکلاء نے دلائل دیے۔
19 فروری 2019 کو پاکستانی وکیل خاور قریشی نے اپنے دلائل میں بھارتی مؤقف کو مسترد کردیا۔ 20 فروری 2019 کو بھارتی وکیل نے دوبارہ دلائل میں بار بار ویانا کنونشن کا حوالہ تو دیا لیکن کلبھوشن یادیو کی شہریت اور دو ناموں سے پاسپورٹ رکھنے کے پاکستانی سوالات کا جواب نہیں دیا۔
21 فروری کو پاکستانی وکیل خاور قریشی اور اٹارنی جنرل انور منصور نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔