Aaj Logo

شائع 18 مارچ 2019 01:58pm

کہیں آپ کا بچہ امتحانات سے تو خوف زدہ نہیں؟

امتحانات کا زمانہ ہے۔ پچیس مارچ سے سیکنڈری بورڈ کے امتحانات اور اس کے بعد اپریل میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہونے جارہے ہیں۔ مئی کے مہینے میں او لیول کے امتحانات ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ والدین کو بچوں کے پیش آمدہ امتحانی دباؤ یا کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کردی جائیں۔

امتحانات کا خوف یا ذہنی دباؤ طلبہ وطالبات کا ایک عام اور اہم مسئلہ ہے۔ پوری دنیا میں اس پر ماہرین نفسیات نے کام کیا ہے اور اس بنیاد پر تحریر و تربیت کے ذریعے طلبہ و طالبات کو اپنے امتحانی دباؤ سے نمٹنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔

امتحانی خوف یا دباؤ کا تعلق محض ایسے طلباء سے نہیں جو سارا سال محنت نہیں کرتے یا تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے، بلکہ سارا سال محنت کرنے والے اور اچھے نمبر لینے والے طلباء بھی ایگزام اسٹریس کے آگے بے بس ہوجاتے ہیں۔ اس کرب کی وجہ سے طلبہ و طالبات میں جو اثرات نمایاں ہوتے ہیں، ان کی درج ذیل علامات سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات کے دباؤ میں ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: سیلفی کی عادت – ذہنی بیماری کی علامت

جسمانی علامات

امتحانات کے دباؤ میں مبتلا اسٹوڈنٹس کی نیند خراب ہوجاتی ہے، بھوک ختم ہوجاتی ہے، جلد پر بعض اوقات دھبے یا ددوڑے پڑجاتے ہیں، گردن یا سر میں درد ہوتا ہے، سوڈا ڈرنک یا کڑک چائے پینے کیلئے بےچینی بڑھ جاتی ہے اورطبیعت میں چڑچڑاپن آجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے بات بات پر غصہ آتا ہے۔ بعض لوگوں کو متلی بھی آسکتی ہے۔

جسمانی سنسناہٹ

جسمانی علامات کے ساتھ جسمانی سنسناہٹ میں بھی فرق آتا ہے۔ ان سنسناہٹوں کی وجہ سے درد کی سنسناہٹ پیدا ہوتی ہے، غنودگی بڑھ جاتی ہے، عضلاتی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور سب سے خطرناک بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے۔

سوچ

جو لوگ زیادہ دباؤ میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں امتحانات کی تاریخ سے بہت پہلے سے منفی کیفیات پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ ان کیفیات میں سب سے زیادہ وہ اپنی سوچ سے پریشان ہوتے ہیں۔ انہیں تنقیدی خیالات آتے ہیں، بھاگنے یا سب کچھ چھوڑ دینے کا جی چاہتا ہے، دوسروں سے اپنا موازنہ شروع کردیتے ہیں کہ ہم تو اس امتحان کی وجہ سے یہ عذاب جھیل رہے ہیں اورفلاں مزے کررہا ہے۔

امتحانی کرب سے متاثر ہونے والے طلبہ و طالبات کے ذہن میں یہ مناظر چلتے رہتےہیں کہ وہ ان کے سامنے پرچہ رکھا ہے، مگر انہیں سوالات کے جوابات نہیں معلوم۔ یا پھر، وہ کمرہ امتحان میں شدید پریشان ہیں اور اُن پر ہوائیاں اڑرہی ہیں۔اس قسم کے ذہنی مناظر طلبہ کو مزید پریشان کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا دل پڑھائ سے اچاٹ ہونے لگتا ہے اور وہ امتحان کی تیاری کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

برتاؤ

طلبہ کا برتاؤ بھی بدلنے لگتا ہے۔ وہ کتابوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ خاص طور پر، جس مخصوص مضمون کی تیاری نہیں ہے یا جس مضمون سے دلچسپی نہیں ہے، طلبہ اس کی کتاب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ جو ہوگا، دیکھا جائے گا۔ یہ راہِ فراد کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔

ایسے ہوسکتا ہے، زیادہ کھانے لگیں یا پھر بھوک ہی اڑجائے۔ بعض اوقات لگتا ہےکہ پڑھائ کا دورانیہ ختم ہی نہیں ہوپارہا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ امتحانات کے کرب میں متبلا طلبہ کی کارکردگی گھٹتے گھٹتے آدھی رہ جاتی ہے۔ یقیناً، یہ بات فکر کی ہے، کیوں کہ اگر کارکردگی اور دلچسپی اتنی گھٹ جائے گی تو لامحالہ امتحان میں اچھے نمبر لینا بہت مشکل ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیئے: دولت مند لوگوں کی زندگی میں روزانہ کے دس کام

لوگوں سے میل جول

جونوجوان امتحانات کی وجہ سے پریشان ہوجاتےہیں، وہ ملنا جلنا بھی کم بلکہ ختم کردیتے ہیں۔ ایگزام اسٹریس کا شکار اپنے گھر والوں سے بھی کم بات چیت کرتے ہیں اور اپنے دوستوں سے تو ملنا بالکل ہی چھوڑدیتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی رہی سہی سرگرمی بھی ختم ہوجاتی ہے، حالانکہ یادداشت کو بہتر بنانے اور ذہنی تھکن دور کرنے کیلئے ضروری ہےکہ روزانہ کچھ وقت (مثلاً پینتالیس سےساٹھ منٹ) اپنے دوستوں یاروں کے ساتھ بے تکلف بیٹھک میں گزارے جائیں۔

جذبات و احساسات

امتحانی دباؤ کا سب سے زیادہ اثر جذبات و احساسات پر ہوتا ہے۔ طبیعت میں پریشانی اورمایوسی چھا جاتی ہے۔ کچھ کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ دل کی دھڑکن بڑھ سکتی ہے۔ بعض اوقات تحرک پیدا ہوتی ہے تو فوراً مایوسی گھیرلیتی ہے۔ خوف بھی طاری ہوسکتا ہے۔ اگر یہ جذباتی نشیب و فراز بڑھ جائے تو آگے چل کر تشویش ناک ہوسکتا ہے۔

کیا کیا جائے؟

اگر آپ والدین ہیں تو امتحانات کے دنوں میں  اپنے بچے کی طبیعت پر خاص توجہ دیجیے۔ وہ بالکل نارمل ہے، تب بھی اسے اہمیت دیجیے۔ ان دنوں میں اس پر گھر کے کام کاج کا زیادہ بوجھ ڈالنا مناسب نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے تھوڑے بہت کام ضرور کرانا چاہئیں۔ کیونکہ اگر وہ بالکل ہی بیٹھ رہے گا اور جسمانی حرکت ختم ہوجائے گی تویہ بھی اس کی ذہنی صحت کیلئے نامناسب ہے۔

اگر طبیعت میں زیادہ مایوسی یا الجھن یا چڑچڑاپن محسوس ہو، بچہ کھانے وقت کھانا نہ کھائے یا دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھائے بغیر یا چند لقمے لے کر ہی اٹھ جائے تو اس اقدام کو سنجیدگی سے لیجیے۔

سب سے بہتر ہوگا، کسی مستند سائیکولوجسٹ یا کاؤنسلر سے رجوع کیا جائے۔ ایسے میں اسے سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جانے سے گریز کیجیے، کیونکہ اکثر سائیکاٹرسٹ ذہنی سکون کی دوائیں لکھ دیتے ہیں، حالانکہ ایگزام اسٹریس یا امتحانی خوف اور کرب کیلئے یہ دوائیں بالکل کارگر نہیں، بلکہ بچے کیلئے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

.نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے  ہے ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں

Read Comments