انسانی تاریخ میں جتنا نقصان زلزلے نے کیا آج تک کسی قدرتی آفت نے نہیں کیا۔
گزرے وقتوں میں جب سائنس اورٹیکنالوجی کا وجود نہیں تھا اور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی۔
ایک قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کواپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے۔
مذہبی عقیدے کی حامل اقوام کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کو زمین ہلا کر ڈراتا ہے۔
اسی طرح ہندو دیو مالائی تصوریہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اس کے نتیجے میں زمین ہلتی ہے۔
ارسطو اور افلاطون کے نظریات اس معاملے میں ملتے جلتے اور کچھ حد تک سائنسی بھی تھے، ان کے مطابق زمین کی تہوں میں موجود ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں۔
سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراس طرح ہرنئے سانحے کے بعد اس کے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجو نے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے۔
زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے، جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے۔
زلزلہ کیسے آتا ہے؟
بیشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد ان کی شدت، ان کے مرکز اور آفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں۔ ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں۔
ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اور دوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے۔
زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوا مادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے۔
میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے، جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیں۔
ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دھنس جاتا ہے اور کچھ اوپر کو ابھر جاتا ہے، جس سے زمین پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے۔
شدت کس طرح نوٹ کی جاتی ہے؟
زلزلے کی شدت اور دورانیے کا انحصار میگما کی حرارت اور اس کے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پرمنحصر ہے، اسی طرح جب آتش فشاں پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوا خارج ہوتا ہے، جس سے زمین کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔
یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہیں اور ماہیت کے حساب سے چار اقسام میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
دو لہریں زمین کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیں۔
پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے۔
سیکنڈری ویوز زمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے تو ایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں۔ ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا۔
سونامی کیسے آتا ہے؟
زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو ان کی قوت سے پانی میں شدید طلاطم اور لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتوراوراونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں، جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کر ناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے۔
جس کی مثال 2004 ء کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے، جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی، اس تباہی کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔