اسلام آباد: سپریم کورٹ میں این آراوکیس کی درخواست قابل سماعت ہونے سےمتعلق وفاقی حکومت،نیب اوردرخواست گزارسے جواب طلب کرلیے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دینگے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے این آراوکیس کی سماعت کی، وسیم سجاد کے وکیل ملک قیوم نے بیان حلفی جمع کرانے کا بتایا،درخواست گزار نے دستاویزات فراہم نہ کرنے کا شکوہ کیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ این آراوججمنٹ آرٹیکل 187 کے تحت ہے جبکہ درخوست 184 کی شق تین کے کے تحت ہے۔
درخوستگزار نےکہا کہ این آر او فیصلے میں سوئس بینکوں میں دولت پاکستانیوں کی ہونے کا کہا گیا۔
آصف زرداری کے پیر نے کہا 60 ملین ڈالرسوئس بینکوں میں پڑے ہیں، جسٹس اعجاز نے اسے اخباری باتیں قراردیتے ہوئےمواد پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا184 کی شق تین پرٹرائل نہیں کرسکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے پہلے 60 ملین ڈالرسے متعلق بتائیں وہ کہاں پڑے تھے،اب کدھرہیں،یہ رقم کس کی تھی،اسکا بینی فیشری کون ہے؟دستاویزات کہاں پڑی ہیں؟زبانی باتوں پرآگے نہیں بڑھ سکتے۔
درخواستگزار نے کہاکہ مطلوبہ معلومات نیب نے دینی ہیں جومختلف ریفرنس میں پڑی ہیں، فاروق ایچ نائیک نے آصف زرداری،پرویزمشرف اورملک قیوم کے تحریری جوابات فراہم کرنے کی استدعا کی،کہا کہ آصف زرداری آٹھ سال جیل میں رہے اسکے بعد بھی معاملہ ختم نہیں ہورہا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اطمینان رکھیں کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے،عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق وفاق ،نیب اور درخواست گزارسے جواب طلب کرتےہوئے سماعت تین ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔