محترم قارئین، کیا آُپ نے کبھی سوچا آج کا انگریز جو چاند پر قدم رکھ چکا ہے، مریخ تک بھی پہنچ گیا، خلاء میں موجود نت نئے سیاروں تک رسائی حاصل کررہا ہے اور مختلف حقائق کو جمع کرکے اپنی ایجادات پر فخر کرتا ہے۔ اس کی کامیابی کے پیچھے اصل راز کیا ہے؟
قرآن پاک کی سورۃ الرحمٰن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اے گروہِ جن و اِنس اگر تمہیں قدرت ہو کہ زمین و آسمان کے کناروں سے نکل جاؤ، تو نکل جاؤ، اور زور کے سوا تو تم نکل سکنے ہی کے نہیں۔ تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو 1400 سال پہلے صاف صاف اشارہ دے دیا ہے کہ انسان اگر چاہیں تو زمین سے باہر جاسکتے ہیں۔ مگر اس کیلئے بڑا زور چاہئیے۔
یہ آیات جب ایک انگریز سائنس دان کے سامنے سے گزریں تو وہ اس سے بڑا متاثر ہوا اور کہا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب میں اگر یہ سب لکھا ہے تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی۔ اس نے آیت میں موجود لفظ ''زور" کو دماغ میں رکھا اور سوچا کہ ایسی کوئی چیز ہو جو زمین کے کناروں کو چیر کر خلاء میں پہنچ سکے۔
اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اس نے شٹل تیار کیا۔ یہ اتنی قوت پیدا کرتا ہے کہ اس سے با آسانی زمین سے خلاء میں پہنچا جا سکتا ہے۔ خلاء میں پینچتے ہی اس کے بوسٹرز شٹل سے الگ ہوکر واپس زمین پر گرجاتے ہیں، جبکہ شٹل آگے کا سفر جارہی رکھتا ہے۔
چودہ سو سال پہلے بھلا کونسی سائنس تھی جس نے انسان کو بتایا کہ اس زمین سے باہر بھی کچھ ہے۔ اب انسان نے زمین کے مدار سے نکل کر دیکھا تو جانا کہ یقیناً تمام چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے، اور وہ بڑے علم اور بزرگی والا ہے۔
ہم صرف قرآن پاک کو پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور چوم کر واپس الماری میں رکھ دیتے ہیں، جبکہ انگریز اس میں موجود تعلیمات پر عمل کرکے ہم سے کئی سو سال آگے پہنچ چکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ قرآن کریم میں عقل والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں۔ اس لئے کوشش کریں کہ قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ سمجھ کر پڑھیں تاکہ اس میں موجود تعلیمات ہماری زندگی کو راہ راست پر لاسکیں۔