Aaj Logo

شائع 27 اپريل 2018 10:02am

انوکھی جیل، جہاں کے قیدی واپس جانے سے انکار کردیتے ہیں

ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے ساحل سے 75 کلومیٹر کی دوری پر ایک جزیرہ ہے جو بیسٹوئے کہلاتا ہے۔ ہرے بھرے جزیرے کی آبادی 115 افراد پر مشتمل ہے جو لکڑی سے بنے ہوئے مکانوں یا کاٹیجز میں رہتے ہیں۔ جزیرے کے باسی کاشت کاری، گلہ بانی، ماہی گیری جیسے پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں جن پر سوار ہوکر وہ گھڑ سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

یہاں پر ایک ٹینس کورٹ اور سوانا ( بھاپ سے غسل کرنے کی جگہ) کی سہولت بھی موجود ہے۔ جزیرے کے خوب صورت ساحل پر مکین غسل آفتابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جزیرے کے وسط میں ایک مارکیٹ ہے جہاں سے لوگ ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں۔

درج بالا تفاصیل سے آپ کے ذہن میں ایک جزیرے پر بسے ہوئے پُرسکون گاؤں کا تصور ابھرا ہوگا جہاں کے باسی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہوں۔ مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ بیسٹوئے پر کوئی گاؤں آباد نہیں بلکہ یہ سرکاری جیل ہے، یہاں رہنے والے 115 افراد قیدی ہیں۔

ان قیدیوں میں خطرناک قاتل اور منشیات فروش بھی شامل ہیں۔ تاہم یہ قیدی اس جزیرے پر قیدیوں کی طرح نہیں بلکہ گاؤں کے باسیوں کی طرح رہتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نہ تو جزیرے کے اطراف کوئی حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہے اور نہ ہی خارداریں تاریں لگی ہوئی ہیں، نہ یہاں خونخوار کُتوں کی زنجیر تھامے مسلح محافظ گشت کرتے نظر آتے ہیں ( پانچ محافظ ضرور ہیں مگر وہ رات میں صرف چوکیداری کے فرائض انجام دیتے ہیں)، نہ ہی قیدیوں کو کوٹھریوں میں رکھا جاتا ہے۔

رات کے کھانے میں قیدیوں کو ان کی من پسند ڈشیں فراہم کی جاتی ہیں۔ البتہ ناشتہ انھیں خود تیار کرنا ہوتا ہے۔ ناشتے کا سامان اور دیگر اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے انھیں حکومت کی طرف سے ماہانہ رقم فراہم کی جاتی ہے۔ یہ اشیاء وہ جزیرے پر قائم مارکیٹ سے خرید سکتے ہیں۔

اگر روایتی جیلوں سے موازنہ کیا جائےتو بیسٹوئے، قیدیوں کے لیے جنت سے کم نہیں، جہاں وہ جزیرے کی حدود میں رہتے ہوئے، اپنی مرضی سے شب و روز بسر کرنے اور پتلی دال کے بجائے من چاہا کھانا کھانے کے لیے آزاد ہیں۔

خطرناک قیدیوں کو جیل کی کوٹھری کے بجائے اس  جنت  میں رکھنے کا سبب کیا ہے؟ اس بارے میں بیسٹوئےکے سابق گورنر آرنی نیلسن کہتے ہیں کہ اس کی وجہ قیدیوں کو سدھرنے میں مدد دینا ہے۔ روایتی جیلوں کے برعکس اس جیل سے آزاد ہونے والے قیدیوں میں پھر سے جرائم کا ارتکاب کرنے کی شرح بہت کم یعنی محض 16 فی صد ہے۔ جبکہ یورپ میں یہ شرح 70 فی صد ہے۔

بیسٹوئے میں آنے والے قیدیوں کو ان کی پسند کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ کچھ قیدی گلہ بانی پسند کرتے ہیں، کچھ کاشت کار بن جاتے ہیں، کچھ کھانا پکانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے قیدی بڑھئی، مکینک، جنرل اسٹور کے مینیجر وغیرہ بن جاتے ہیں۔ وہ صبح ساڑھے آٹھ بجے سے سہ پہر ساڑھے تین بجے تک یہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ اس کے بعد کا وقت جزیرے کی سیر کرنے، سن باتھ لینے، گھڑسواری اور دیگر مشاغل میں گزارتے ہیں۔

بیسٹوئے پر قیدیوں کو فراہم کیا جانے والا آزاد ماحول ان کے ذہن کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے رہا ہونے والے بیشتر قیدی جرائم کی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ جب کئی قیدیوں نے مدت پوری ہونے کے باوجود بیسٹوئے چھوڑنے سے انکار کردیا۔ وہ اپنی باقی زندگی اسی جزیرے پر گزارنے کے خواہش مند تھے۔ جزیرے کی انتظامیہ نے بہ دقت تمام انھیں یہاں سے جانے پر راضی کیا۔

بشکریہ CNN

Read Comments