آئن اسٹائن کا شمار جنیرینشن کے بہترین سائنسدانوں میں ہوتا ہے تاہم اپریل انیس سو پچپن میں آئن اسٹائن سینے میں تکلیف کے بعد پرنسٹن ہسپتال میں داخل ہوئے اور دوسرے دن یہ خبر گردش کررہی تھی کہ آئن اسٹائن دنیا سے گزر گئے ہیں۔ان کی موت دل سے جسم کو خون مہیا کرنیوالی اہم شریان کے پھٹنے سے واقع ہوئی۔
ڈاکٹر ہاروے کا شمار ان ڈاکٹرز میں ہوتا ہے جنہیں یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ آئن اسٹائن کا پوسٹ مارٹم کرے اور ان کی موت کی وجہ کا تعین کرے ۔
تاہم ڈاکٹر ہاروے نے پوسٹ مارٹم کے دوران ہی آئن اسٹائن کا دماغ ان کے سر سے نکال لیا اور فوری یونیورسٹی آف پینسلوانیا جا کر ایک ٹیکنیشن کی مدد سے آئن اسٹائن کے دماغ کے دوسو چالیس بلاکس میں ٹکڑے کرلیے اور پھر انکو الگ الگ سیلولائیڈز میں محفوظ کرلیا۔
ڈاکٹر ہاروے نے آئن اسٹائن کے بیٹے سے بھی اسہی دوران ملاقات کی اور درخواست کی وہ آئن اسٹائن کا دماغ ریسرچ کیلئے نکالنا چاہتا تاہم آئن اسٹائن کے بیٹے نے اس یقین دہانی پر کہ یہ دماغ ریسرچ کیلئے مثبت طور پر استعمال کیا جائے گا ہاروے کو اجازت دے دی تھی۔
اگرچہ کہ ڈاکٹر ہاروے نے آئن اسٹائن کے کٹے ہوئے ٹکڑوں میں سے ایک ڈاکٹر زمیرمین سمیت دیگر سائنسدانوں کو ریسرچ کیلئے دے دیاتاہم باقی ٹکڑے اسنے اپنے لئے ریسرچ کیلئے رکھ لیے۔
بعد میں بعض ڈاکٹرز کی جانب سے آئن اسٹائن کے دماغ کے ٹکڑے مانگے بھی گئے تاکہ مزید ریسرچ کی جاسکے تو ہاروے نے یہ کہہ کر انکار کردیا ابھی اسکو ان کے نمونوں کی ریسرچ پر ایک سال درکار ہے۔
آئندہ تیس سال تک ہاروے آئن اسٹائن کے دماغ کے ٹکڑوں کے ہمراہ میڈویسٹ کے علاقوں میں سفر کرتا رہا، حتی کہ آئن اسٹائن کے دماغ کی چوری سے متعلق خبریں بھی مقامی اخبار میں شائع ہوئی اور اس خبر نے عوامی توجہ حاصل کی۔
تاہم انیس سو اٹھاسی میں جب ہاروے نے اپنا میڈیکل لائسنس منسوخ کروادیا تو پھر اس نے پرنسٹن کا دورہ کیا اور پھر اس نے آئن اسٹائن کی پوتی سے بھی ملاقات کی ۔
تھامس ہاروے کی موت دوہزار سات میں واقع ہوئی تاہم اس سے قبل ہی وہ آئن اسٹائن کا دماغ پرنسٹن ہسپتال کو ہی عطیہ کرچکا تھا۔
ایک مرتبہ پھر عوام کی دلچسپی اس میں بڑھی جس کے بعد بعض ریسرچرز جن کو تھامس کی جانب سے آئن اسٹائن کے دماغ کے بعض چھوٹے ٹکڑے بھیجے گئے تھے انہوں نے بھی وہ ٹکڑے یونیورسٹٰی آف پینسلوانیا اور پرنسٹن کو واپس بھیجوادیئے۔
اب میوٹر میوزیم آف فلاڈیلفیا وہ جگہ ہے جہاں پر آئن اسٹائن کے دماغ کے ٹکڑوں کو محفوظ رکھا گیا ہے۔
اس وقت تک آئن اسٹائن کے دماغ پر ریسرچ کے حوالے سے ایک ہی مقالہ سامنے آیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئن اسٹائن کے دماغ میں سیلولائیڈ خلیوں کی تعداد عام دماغوں کے موازنے میں زیادہ تھی۔
Source: business insider