ملا نصیر الدین کا ایک دفعہ گدھا مرگیا جس کی وجہ سے ان کی زندگی مشکلات کا شکار ہوگئی ، لہذا بڑی محنت و مشقت کے بعد کچھ رقم جمع کی اور گدھا خریدنے کیلئے بازار کا رخ کیا۔ حسب منشا گدھا خریدا اور گھر کی راہ لی، وہ گدھے کی رسی تھامے آگے آگے چل رہے تھے اور گدھا پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ راستے میں چند ٹھگوں نے ملا نصیر الدین کو گدھا لے جاتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی چل دیئے۔
ان میں سے ایک ٹھگ ملا نصیر الدین کے بالکل ساتھ چلنے لگا۔ تھوڑی دور ملا نصیر الدین کے ساتھ چلنے کے بعد اس نے چالاکی سے گدھے کی گردن سے رسی نکال کر اپنے گلے میں ڈال لی ۔
تاہم جب ملا گھر پہنچے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو چار ٹانگوں والے گدھے کے بجائے دو ٹانگوں والا گدھا نظر آیا ۔ یہ دیکھ کر ملا حیرت میں مبتلا ہوگئے اور کہا میں نے تو چار ٹانگوں والا گدھا بازار سے خریدا تھا پر یہ انسان کیسے بن گیا۔
یہ سن کر اس ٹھگ نے کہا سرکار میں اپنی ماں کو نہایت تنگ کرتا تھا اور ہروقت ان کو پریشان کیے رکھتا تھا تو ایک دن میں ان کی بددعا سے گدھا بن گیا اور پھر میری ماں نے مجھے بازار میں لے کر فروخت کردیا۔ اس کے بعد سے ہی میں گدھے کی زندگی بسر کررہا ہوں۔
تاہم آج میں آپکی روحانیت سے دوبارہ انسان بن گیا ہوں اور پھر اس نے ملا کے ہاتھوں کو چوما اور شکریہ ادا کیا۔ ملا کو اسکی یہ بات بہت پسند آئی۔
تو ملا نے اس شخص کو نصیحت کی آئندہ کبھی اپنی ماں کو تنگ نہ کرنا اب جاو اور اپنی ماں کی خدمت کرو۔
ٹھگ ملا کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہوگیا۔ دوسرے دن ملا نے اپنے ایک دوست سے ادھار پکڑا اور دوبارہ گدھا خریدنے مارکیٹ جاپہنچے لیکن وہاں پہنچ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ وہی گدھا دوبارہ وہاں پر بندھا ہوا بازار میں موجود تھا۔
یہ دیکھ کر ملا اس گدھے کے قریب گئے اور کان میں کہا لگتا ہے تم نے میری نصیحت پر عمل نہیں کیا اس لئے گدھے بن گئے۔