پاکستان کے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف، ان کے بچوں اورسمدھی کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے احتساب عدالت میں پیش نہ ہونے پر قانونی اور سیاسی حلقوں میں شریف خاندان کی ہاکستان واپسی سے متعلق چہ مگوئیاں نے زور پکڑ لیا ہے۔
قانونی حلقوں میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ اگر نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد پاکستان واپس ہی نہیں جتے یا لندن میں اپنا قیام بڑھا لیتے ہیں اور احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو پھر ان کے خلاف دائر مقدمات کا کیا بنے گا؟
گزشتہ روز بھی پاکستان کے ایک مقامی ٹی وی پر مختلف تبصرہ نگاروں نے اس مسئلے پر گفتگو کی اور ان کی اکثریت کا یہی کہنا تھا کہ شریف فیملی خاص طور پر نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے۔ تبصرہ نگاروں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لیے نواز شریف کا وطن واپس آنا اور اگر قید بھی کاٹنی پڑے تو ایسا کرنے سے ہی شریف خاندان کی سیاست اور ان کی پارٹی باقی رہ سکتی ہے۔
مریم نواز شریف کچھ دن قبل ہی یہ کہہ چکی ہیں کہ بعض اوقات قید کاٹنا سیاسی موت نہیں بلکہ سیاسی حیات بن جاتا ہے۔
تجزیہ نگار امتیاز عالم کہتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ نواز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نواز شریف کے نام پر ووٹ دیے ہوں تو وہ کیسے ملک میں واپس نہیں آئیں گے؟
اُنھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں ضمنی انتخاب کے نتائج اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ نواز شریف ابھی بھی عوام میں مقبول ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر نواز شریف وطن واپس نہیں آتے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان آئندہ انتخابات میں اُن کی جماعت کو ہی ہو گا۔
امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ ابھی تو نیب کے مقدمات شروع ہوئے ہیں اس لیے سابق وزیر اعظم کے مستقبل کے بارے کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا۔
ماہر قانون اور قومی احتساب بیورو کے سابق ایڈشنل پراسیکیوٹر جنرل عامر عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ شریف خاندان کے افراد اگر عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو اس کی سزا تین سال ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر نواز شریف اور ان کے بچے حال ہی میں جاری کردہ سمن کی تعمیل میں عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو معاملہ داخل دفتر کر دیا جائے گا لیکن ان کی وطن واپسی پر ہی ان مقدمات کو دوبارہ کھولا جائے گا۔
نیب کے سابق پروسیکیوٹر کے مطابق پہلے ایک زمانے تک ملزمان کی عدم موجودگی میں بھی نیب کارروائی کرسکتا تھا لیکن نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں نیب کے قانون سے یہ شِق نکال دی گئی۔ اور جو شِق شامل کی گئی اس کے مطابق جب تک ملزمان عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے اس وقت تک ان کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع نہیں ہو سکتی۔
اُنھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالتوں میں دائر ریفرینسز میں سپریم کورٹ نے ایک نگراں جج بھی مقرر کر دیا ہے اس لیے نیب ان مقدمات کو التوا میں رکھنے کے لیے حیلے بہانے نہیں کرسکتی۔
نیب کے سابق ایڈشنل پراسکیوٹر جنرل نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پاکستان اور برطانیہ میں جہاں آج کل شریف فیملی موجود ہے، ملزموں کے تبادلے کا معاہدہ موجود نہیں ہے مگر اس کے باوجود احتساب عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت ملزمان کو انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لاسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کی حکومت کو برطانیہ کے حکام کو خط لکھنا ہوگا۔
ماہر قانون اور متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فروغ نسیم کے مطابق نواز شریف اور ان کے بچے اگر بلانے پر عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو ان کی جائیداد ضبط کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔
اُنھوں نے کہا کہ جائیداد کی ضبطگی اسی صورت میں رک سکتی ہے اگر ملزمان وطن واپس آ کر اس کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔
واضح ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں شریف برادران کے بیرون ملک چلے جانے پر ان کے خلاف نیب مقدمات کی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی اور وطن واپسی پر ہی ان کے مقدمات پر دوبارہ عدالتی سماعت شروع ہوئی تھی۔
بشکریہ: بی بی سی اردو