انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اس بار جاپان کے وزیر اعظم آبے شِنزو کی میزبانی گجرات کے شہر احمد آباد میں کر رہے ہیں۔ جاپانی وفد کے لیے یہاں کی ایک خاص عمارت ہاؤس آف منگل داس گردھرداس میں خصوصی دعوت کا انتظام کیا گیا ہے۔ 1924 میں بننے والی یہ عمارت دراصل کپڑوں کی تجارت کرنے والے ایک امیر خاندان کا گھر ہوا کرتی تھی، جسے بعد میں ہوٹل بنا دیا گیا۔ لیکن وہاں جانے سے پہلے مودی اور آبے پاس میں واقع سِدی سعید مسجد پہنچے۔ ظاہر ہے اگر وزیر اعظم مودی نے شنزو آبے کے دورے میں اس مسجد کو شامل کیا ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی خاص بات ضرور ہو گی۔ اس مسجد کا نام سِدی سعید کے نام پر رکھا گیا ہے، جنھوں نے اسے تعمیر کروایا تھا۔ سِدی سعید یمن سے ہندوستان آئے تھے اور انھوں نے نصیرالدین محمود سوم اور سلطان مظفر شاہ سوم کے دربار میں کام کیا۔ گجرات کے محکمہ سیاحت کے مطابق شہر کے نہرو پل کے مشرقی حصے میں واقع اس مسجد کی تعمیر 1573 میں ہوئی اور یہ مغل دور میں شہر میں بننے والی سب سے بڑی مسجدوں میں سے ایک ہے۔ اس کی مغربی دیوار کی کھڑکیوں پر تراشی گئی جالیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ ایک دوسرے سے لپٹتی شاخوں والے درختوں کی منظر کشی کرتی یہ نقاشی پتھروں کو تراش کر کی گئی ہے۔ ویسے تو یہ مسجد جامع مسجد سے بہت چھوٹی ہے اور اس کے اندر کھلی جگہ کی کمی ہے، لیکن نقاشی کے لحاظ سے یہ دنیا کی جانی مانی مسجدوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسے مسجد کو سِدی سعید کی جالی بھی کہتے ہیں اور یہ احمد آباد کے لال دروازے کے قریب واقع ہے۔ گجرات کے تاریخ دان ڈاکٹر رضوان قادری نے بی بی سی کو بتایا کہ جو لوگ صدیوں پہلے افریقہ سے انڈیا آئے تھے، انھیں سدی کہا جاتا ہے۔ ان کو دراصل غلام بنا کر لایا گیا تھا، لیکن بعد میں یہ بھی معاشرے کا حصہ بن گئے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کو بنانے والے سِدی سعید کو مغل بادشاہ اکبر نے امیر الحج بنا کر بھیجا تھا۔ مسجد کی تعمیر چل ہی رہی تھی کہ 1583 میں سِدی سعید انتقال کر گئے اور کام رک گیا۔ یہ مسجد آج بھی اسی حال میں ہے۔ رضوان قادری کہتے ہیں کہ سِدی سعید کو اسی مسجد کے اندر دفن کیا گیا ہے، حالانکہ یہاں کوئی مقبرہ نہیں ہے۔ اس مسجد میں نہ مینار ہیں اور نہ ہی یہ اس دور کے طرز تعمیر کی وجہ سے مشہور ہے۔ پھر ایسا کیا ہے جو سبھی اس مسجد کے دیوانے ہیں؟ مسجد کی خوبی اس کی جالی ہے، کیونکہ احمد آباد میں ان جالیوں کی خاص اہمیت ہے۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ جہانگیر جیسے مغل بادشاہ نے احمد آباد کو 'گرد آباد' یعنی ’دھول غبار کا شہر‘ کہا تھا، لیکن یہ مسجد اس شہر کی پہچان بنی ہوئی ہے۔ اس جالی کی خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ایک ہی پتھر سے نہیں تراشی گئی۔ رضوان قادری کہتے ہیں کہ اسے چھوٹے چھوٹے حصوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ یہ جالی احمد آباد کی پہچان بن گئی ہے یہاں تک کہ شہر کے جانے مانے تعلیمی ادارے آئی آئی ایم احمد آباد کے لوگو میں بھی یہ جالی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مرہٹہ دور میں اس مسجد کو اصطبل بنا دیا گیا، لیکن انگریزوں کے دور میں لارڈ کرزن نے ایک نیا قانون متعارف کروایا جس کے بعد اس کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ رضوان قادری کے مطابق روس کے آخری ولی عہد ہوں یا پھر 1969 میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے ساتھ آنے والے پرنس، سب اس مسجد کے مداح رہے ہیں۔ بشکریہ: بی بی سی اردو