سویڈن دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے کم کیش کا استعمال ہوتا ہے۔ گذشتہ برس خریدوفروخت میں صرف ایک فیصد نوٹ یا سکے استعمال ہوئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شمالی یورپ کا یہ ملک باقی دنیا سے کیسے آگے ہے؟ 'ہم کیش نہیں لیتے،' یہ سائن اب وہاں مختلف جگہوں پر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ وکٹوریہ نلسن جنھوں نے ملک بھر میں بیکری کے 16 سٹورز میں سے دو کو سنبھال رکھا ہے کہتی ہیں کہ 'ہم ڈاکہ زنی کے خطرے کو کم سے کم کرنا چاہتے ہیں اور صارفین کارڈ کے ذریعے تیزی سےادائیگی کرتے ہیں۔' ' اس کا ردعمل بہت مثبت ہے، ہمیں سٹاک ہوم میں اپنا کارڈ استعمال کرنا پسند ہے۔' ملک کے مرکزی بینک کے مطابق سویڈن بھر کے سٹوروں میں ادائیگی کے وقت کیش کا استعمال 20 فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے۔ یہ پانچ برس قبل کے مقابلے میں اب نصف رہ گیا ہے۔ کئی برس قبل جب یونینز کی جانب سے ڈرائیوروں کے تحفظ پر خدشات کا اظہار کیا گیا تھا تب سے بسوں میں سکوں اور بینک نوٹ کے استعمال پر پابندی ہے۔ حتی کہ دی ایبا میوزیم اور پوپ ہاؤس ہوٹل میں بھی کارڈ کے ذریعے ہی رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ سویڈش میوزیکل گروپ، ایبا کے سابق رکن اور معروف موسیقار بیون الوےاوس ملک میں کیش فری ٹرینڈ کے بڑے حامیوں میں اس وقت شامل ہو گئے جب ان کے بیٹے کے اپارٹمنٹ پر ایک ڈاکے کے دوران کیش کا نقصان ہوا تھا۔ بہت سے کاروباری حضرات بھی اب اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اور مقامی سطح پر بنائی جانے والی ٹیکنالوجی جیسے کہ آئی زیٹل وغیرہ کا استعمال کر رہے ہیں، جو سویڈن کے موبائل کریڈٹ کارڈ کی جانب آغاز ہے۔ اس قسم کی آسان ٹیکنالوجی کی مدد سے مارکیٹ میں کاروبار مزید آسان ہو گیا ہے۔ اس کی نسبت بے گھر لوگوں کے لیے کام کرنے والے رفاہی میگزینز کے لیے ادائیگی بھی آسان ہو گئی ہے۔ سینوبر جانسن کا کہنا ہے کہ 'میں اپنے بچوں کو فن فیئر پر لے کر گئی وہاں ایک لڑکا غبارے بیچ رہا تھا اور اس کے پاس بھی کارڈ مشین تھی۔' وہ انگلینڈ میں رہتی ہیں اور پہلی مرتبہ سویڈن گئی تھیں اور اس نظام سے بہت متاثر ہوئیں۔ سوش، سمارٹ فون سے ادائیگی کا نظام ہے۔ یہ سویڈن میں ایک نئی ایجاد ہے اور ملک کی ایک کروڑ آبادی میں سے نصف اسے استعمال کر رہی ہیں۔ ملک کے مرکزی بینک اس نظام میں شامل ہیں وہ صارفین کو یہ سہولت دیتے ہیں کہ وہ بحفاظت اپنے موبائل کا استعمال کرتے ہوئے کسی کو بھی رقم بھجوائیں۔ اب وہاں بل کی ادائیگی کے وقت کوئی یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ میرے پاس کیش کم ہے۔ سٹاک ہوم رائل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے منسلک پروفیسر نکولاس آرویڈسن کہتے ہیں کہ عام طور پر صارفین نئی ٹیکنالوجی کے استعمال میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور اسے بہت جلد اپنا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی نئی ایجاد کا نتیجہ جاننے کے لیے سویڈن نسبتاً بہترین جگہ ہے جہاں کی آبادی کم ہے اور تاریخی طور پر یہاں بدعنوانی کی سطح بھی بہت کم رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سویڈن کے رہنے والے بینکوں اور اداروں پر اعتماد کرتے ہیں اس لیے انھیں یہ خطرہ نہیں کہ رقم کی الیکٹرانک ادائیگی میں ان کے ساتھ کوئی دھوکہ ہو سکتا ہے۔ پروفیسر آروڈسن کہتے ہیں کہ سویڈن کا اپنے ملک میں سکوں اور اور بینک نوٹوں کو اپ ڈیٹ کرنے کا اعلان رکس بینک نے سنہ 2010 میں کیا تھا اور اس پر اس برس پورے طرح عمل درآمد ہورہا ہے اور یہ دراصل کیش کے بغیر رقم کی منتقلی کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ نے سوچا ہو گا کہ نئی قسم کا کیش دلچسپی کا باعث ہو گا لیکن اس کے الٹ ری ردِ عمل آیا۔‘ رکس بینک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً گذشتہ برس ایک فیصد ادائیگیاں نوٹوں اور سکوں کے ذریعے ہوئی جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں یہ تناسب سات فیصد تھا۔ تاہم پروفیسر آروڈسن کا اندازہ ہے کہ کیش کے استعمال میں 2020 تک معمولی کمی آئے گی۔ اس سلسلے میں ایک سروے بھی کیا گیا جو ابھی شائع ہونا باقی ہے۔ اس سروے میں شامل 800 کاروباری حضرات میں سے دو تہائی کا خیال ہے کہ سنہ 2030 تک کیش کا استعمال بالکل ختم ہو جائے گا۔ لیکن ہر ایک اس رحجان سے خوش نہیں ہے۔ جارن اریکسن جو کہ سابق پولیس کمشنر اور انٹر پول کے صدر رہے ہیں۔ ان کی کافی شاپ میں اب بھی پرانا طریقہ رائج ہے اور کیش لیا جاتا ہے تاہم بہت سے بینک اب کیش جمع نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں رقم نکلوانے کے لیے کاؤنٹر موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں کارڈ پسند کرتا ہوں۔ میں صرف اس لیے ناراض ہوں کیونکہ دس لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہیں جو کارڈ استعمال نہیں کرسکتے۔ ضعیف، سابقہ مجرم، سیاح، تارکین وطن۔ بینک ان کی پروا نہیں کرتا کیونکہ وہ ان کے لیے منافع بخش نہیں ہیں۔‘ اریکسن کہتے ہیں کہ اس سسٹم کو بہت آسانی سے خراب کیا جا سکتا ہے۔ اس نے ہم پر قبضہ کیوں کر لیا ہے جب یہ بہت آسان ہے؟ ادائیگی کے سسٹم کو بالکل ختم کردیا ہے اور ہم بالکل بے یار و مددگار ہیں۔‘ ان کی یہ دلیل ملک کے سیاستدانوں سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ جہاں جولائی میں ملک میں ایجنسی کا ڈیٹا لیک ہونے کی وجہ سے سکیورٹی کے بارے میں بحث بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اتحادی حکومت کو بہت مشکل ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگوں اور عمر رسیدہ ووٹرز اگلے برس انتخابات میں سخت ثابت ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر آروڈسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ کیش فری سسٹم کو اپنا چکے ہیں لیکن اب بھی دو تہائی آبادی ایسی ہے جو کیش اور سکوں سے مکمل چھٹکارا نہیں چاہتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ استعمال نہ کرنے کے باوجود بھی کیش رقم سے جذباتی لگاؤ بھی رکھتے ہیں۔ بشکریہ: بی بی سی اردو