Aaj Logo

شائع 17 جولائ 2017 02:58pm

آج تک کا دنیا کا امیر ترین شخص کون؟

جیکب فگر اگر آج زندہ ہوتے تو وہ بل گیٹس، مارک زكربرگ، وارن بفیٹ اور كارلوس سلم یعنی دنیا کے چار بڑے امرا سے زیادہ دولت مند ہوتے۔

جیکب کے سوانح نگار اور وال سٹریٹ جنرل کے سابق مدیر گریگ سٹائنمیٹز کے مطابق، اس جرمن بینکر اور تاجر کو 'دی رچ ون' پکارا جاتا تھا۔ یہ سنہ 1459 سے 1525 کے درمیان کا زمانہ تھا۔

جیکب نے اس دور میں آج کے 400 ارب امریکی ڈالر کمائے۔ گریگ نے سنہ 2015 میں جیکب کو اپنی کتاب 'دی ریچسٹ مین ھو ایور لِوڈ' میں تاریخ کا سب سے امیر آدمی قرار دیا ہے۔

لیکن ان کے اس دعوے پر سوال کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔

بی بی سی ورلڈ سے بات کرتے ہوئے گریگ نے کہا: جیکب بے شک دنیا میں اب تک کے سب سے طاقتور بینکر تھے

سب سے امیر بتانے کی توجیہ۔

گریگ بتاتے ہیں: جیکب نشاۃ الثانیہ کے دور میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس وقت کی دنیا کو دو طاقتیں، سلطنت روم اور پوپ چلاتے تھے۔ جیکب فگر ان دونوں کو پیسے فراہم کرتے تھے۔

تاریخ میں ایسا کوئی شخص نہیں ہوا، جس کے پاس اس قدر سیاسی طاقتیں ہوں۔

فگر نے یہ طے کیا کہ سپین کے بادشاہ چارلس اول کو روم کا بادشاہ ہونا چاہیے اور چارلس پنجم کے طور پر انھیں کامیابی بھی ملی۔

چارلس پنجم نے نئی دنیا کو اپنی کالونی بنایا۔ اگر وہ اقتدار میں نہ آتے تو دنیا ویسی نہ ہوتی، جیسی آج ہے۔

اتنے امیر تھے تو کمنام کیوں رہے؟

اس دور کے امرا میڈیكی، سیزر اور لسریزیا بورگيا برادران کے بارے میں بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ اس طرح یہ سوال اٹھتا ہے کہ فگر کے بارے میں کم لوگوں کو ہی علم ہے۔

گریگ اس کی وجہ بتاتے ہیں: 'ایسا اس لیے تھا کیونکہ فگر جرمن تھے اور وہ انگلش بولنے والی دنیا کے درمیان پہچانے نہیں گئے۔

'میں برلن میں وال سٹریٹ جنرل کا بیورو چیف تھا۔ میں نے کئی بار فگر کا نام سنا تھا۔ لیکن مجھے انگلش میں ان کے بارے میں پڑھنے کے لیے کچھ نہیں ملا۔

امیر تھے لیکن رنگین مزاج نہیں

دنیا فگر کے بارے میں شاید اس لیے بھی کم جانتی ہے، کیونکہ وہ رنگین مزاج نہیں تھے۔ جیسا کہ اس دور کے امیروں کے لیے یہ معمول کی بات تھی۔

فگر نے کبھی سیاسی آفس قائم کرنا یا پوپ بننا نہیں چاہا۔ نہ ہی فگر کو عمارتیں بنوانے کا شوق تھا انھوں نے نہ ہی نشاۃ الثانیہ کے کسی آرٹسٹ کو سپانسر کرنے کا کام کیا۔

فگر کا سب سے زیادہ مشہور کام 'فگرائی' ہے۔ یعنی ایک سماجی ہاؤسنگ پراجیکٹ، جسے انھوں نے جنوبی جرمنی کے آگزبرگ میں قائم کیا تھا۔

ایک سال کا کرایہ ایک ڈالر

فگر کا یہ کام اب بھی جرمنی میں مشہور ہے کیونکہ یہاں رہنے والے لوگ اب بھی سال کا کرایہ تقریباً ایک امریکی ڈالر دیتے ہیں۔

گریگ بتاتے ہیں: 'بینکر اس دور میں ذرا چھپ کام کرنا پسند کرتے تھے۔

لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ جیکب فگر اپنی نشانیاں چھوڑ کر نہیں گئے۔ ان کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں حالانکہ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ کم لوگ ہی انھیں جانتے ہیں۔

بازار پر اجارا داری

فگر کے دور میں اقتصادی سرگرمیاں بہت چھوٹے پیمانے پر ہوتی تھیں۔ امیر اپنی زمین اور کسانوں کے کاموں پر منحصر رہتے۔ کسانوں کو اپنی محنت کے بدلے میں سکیورٹی ملتی تھی۔

فگر نے قرض ادائیگی کے بدلے مائننگ رائٹس یعنی کان کنی کے حقوق حاصل کر لیے اور تانبے اور چاندی کے کاروبار پر اجارہ داری حاصل کر لی۔

اس کے علاوہ فگر نے مصالحے کا کاروبار کیا۔ فگر سرمایہ داری کے بانیوں میں سے ایک تھے۔

پہلی نیوز سروس شروع کی

فگر یہ جانتے تھے کہ ذرائع ابلاغ کی کتنی اہمیت ہے۔ وہ اطلاعات اپنے مقابل سے پہلے حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اس کے لیے فگر نے دوسرے شہروں سے کاروبار اور سیاست سے منسلک خبریں لانے والوں کو پیسے دینا شروع کیے۔

فگر کے بعد کے لوگوں نے یہ روایت جاری رکھی اور فگر نیوز لیٹر کی ابتدا کی۔ اسے تاریخ کے ابتدائی اخباروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

سیونگ اکاؤنٹ کا آغاز

میڈیكی کے پاس بینک تھے لیکن کیتھولک چرچ سود کی اجازت نہیں دیتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک سود خوری جائز نہیں تھی۔

فگر نے پوپ لیو پنجم سے رابطہ کیا اور ان سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ فگر نے یہ تجویز پیش کی کہ جو لوگ آگزبرگ کے بینک میں روپے جمع کرائیں گے، انھیں سالانہ پانچ فیصد سود دیا جائے گا۔

سیاحوں کی مدد

فگر اس وقت 33 سال کے تھے جب کولمبس نے امریکہ دریافت کیا گیا تھا۔

فگر ان چند فائننسروں میں سے ایک تھے جنھوں نے دنیا کے سفر پر نکلنے والے فرڈینینڈ ميگلن کے اخراجات برداشت کیے۔

Read Comments