قیامت صورِاسرافیل کی اُس خوفناک چیخ کا نام ہے جس سے پوری کائنات زلزلہ میں آجائے گی، اس ہمہ گیر زلزلہ کے ابتدائی جھٹکوں ہی سے دہشت زدہ ہوکر دودھ پلانے والی مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی، حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہو جائیں گے، اس چیخ اور زلزلہ کی شدت دم بدم بڑھتی جائے گی جس سے تمام انسان اور جانور مرنے شروع ہوجائیں گےیہاں تک کہ زمین و آسمان میں کوئی جاندار زندہ نہ بچے گا، زمین پھٹ پڑے گی، پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اُڑتے پھریں گے، ستارے اور سیارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور پوری کائنات موت کی آغوش میں چلی جائے گی۔ اس عظیم دن کی خبر تمام انبیاءکرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کو دیتے چلے آئے تھے مگر رسولِ خدا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلّم نے آکر یہ بتایا کہ قیامت قریب آپہنچی اور میں اس دنیا میں اللہ کا آخری رسول ہوں، قرآنِ حکیم نے بھی اعلان کیا کہ
'قیامت نزدیک آپہنچی اور چاند شق ہوگیا۔ :اور یہ کہہ کر لوگوں کو چونکایا سو کیا یہ لوگ بس قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر دفعتہً آپڑے ؟ سو یاد رکھو کہ اس کی (متعدد) علامتیں آچکی ہیں، سو جب قیامت ان کے سامنے آکھڑی ہوگی اُس وقت ان کو سمجھنا کہاں میسر ہوگا۔ (سورہ محمد)
لیکن قیامت کب آئے گی اس کی ٹھیک ٹھیک تاریخ تو کُجا سال اور صدی اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، یہ ایسا راز ہے جو خالقِ کائنات نے کسی فرشتے یا نبی کو بھی نہیں بتایا، جبریل امین نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم سے پوچھا تو ان کو بھی یہی جواب ملا کہ جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔ قرآن حکیم نے بھی بتایا کہ قیامت کے مقررہ وقت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، چند آیات یہ ہیں
یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا۔ سو اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق؟ اس (کے علم کی تعین) کا مدار صرف آپ کے رب کی طرف ہے۔ (سورہ النازعات)
یہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب آئے گی، آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم تومیرے رب کو ہی ہے، اُس کو اس کے وقت پراللہ کے سوا دوسرا کوئی ظاہر نہ کرے گا، وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری حادثہ ہوگا، وہ تم پر اچانک آپڑے گی، وہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے آپ گویا اس کی تحقیقات کرچکے ہیں، آپ فرمادیجئے کہ اُس کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔ (سورہ الاعراف آیت 187)
علاماتِ قیامت کی احادیث میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : موت قیامت ہے، پس جو مَرا اُس کی قیامت تو آہی گئی۔ (الاحیاء ص 421 ج 4)
اسی طرح مندرجہ ذیل احادیث میں بھی اگر تحقیق سے کام نہ لیا جائے تو تعارض نظر آتا ہے پہلے حدیث صحیح مسلم میں ہے،
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک جماعت یومِ قیامت تک سر بلندی کے ساتھ حق کے لئے بر سرِ پیکار رہے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین کی ایک ایسی جماعت یومِ قیامت تک زندہ رہے گی مگر مندرجہ ذیل احادیث میں صراحت ہے کہ قیامت سے پہلے تمام مؤمنین کو موت آجائے گی اور قیامت کے دن کوئی مؤمن زندہ نہ ہوگا، وہ احادیث یہ ہیں
بے شک اللہ عزّوجل ایک ہوا بھیجے گا جو ریشم سے زیادہ نرم ہوگی پس جس کے دل میں ایک دانہ یا ایک ذرہ کی برابر بھی ایمان ہوگا وہ اسے نہ چھوڑے گی اور اس کی روح قنض کرلے گی۔ (صحیح مسلم ص 75 ج 1) قیامت نہ آئے گی جب تک یہ کیفیت نہ ہوجائے کہ زمین میں اللہ اللہ نہ کہا جائے۔ (صحیح مسلم ص 84 ج 1)
قیامت ایسے کسی شخص پر نہیں آئے گی جو اللہ اللہ کہتا ہو۔ (صحیح مسلم ص 84 ج 1)
قیامت نہیں آئے گی مگر صرف بد ترین لوگوں پر۔ (صحیح مسلم ص 406 ج 2)
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سب سے پہلی علامت حضرت امام مہدی کا ظہور ہے، احادیث مبارکہ میں حضرت امام مہدی کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے کہ حضرت مہدی حضرت سیّدہ فاطمة الزہراء کی اولاد سے ہوں گے، نام محمد، والد گرامی کا نام عبداللہ ہوگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہت ہوگی پہلے ان کی حکومت عرب میں ہوگی پھر ساری دنیا میں پھیل جائے گی، سات سال حکومت کریں گے۔ امام مہدی مدینہ منورہ میں پیدا ہوں گے، آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، عرب میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہے گی، خبیر کے قریب تک عیسائی پہنچ جائیں گے، اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے مسلمان مدینہ منورہ پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت امام مہدی مدینہ منورہ میں ہوں گے، لوگوں کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ اب امام مہدی کو تلاش کرنا چاہئے، ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کو امام بنالینا چاہئے، اس زمانے کے نیک لوگ، اولیاء اللہ اور اَبدال سب ہی امام مہدیکی تلاش میں ہوں گے، بعض جھوٹے مہدی بھی پیدا ہوجائیں گے، امام اس ڈر سے کہ لوگ انہیں حاکم اور امام نہ بنالیں، مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آجائیں گے، اور بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہوں گے، حجر اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان ہوں گے کہ پہچان لئے جائیں گے اور لوگ ان کو گھیر کر ان سے حاکم اور امام ہونے کی بیعت کرلیں گے، اسی بیعت کے دوران ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو تمام لوگ جو وہاں موجود ہوں گے سنیں گے، وہ آواز یہ ہوگی: ”یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور حاکم بنائے ہوئے امام مہدی ہیں“ جب آپ کی بیعت کی شہرت ہوگی تو مدینہ منورہ کی فوجیں مکہ معظمہ مکرمہ میں جمع ہوجائیں گی، شام، عراق اور یمن کے اہل اللہ اور اَبدال سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بیعت کریں گے۔ ایک فوج حضرت امام مہدی سے لڑنے کے لئے آئے گی، جب وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک جنگل میں پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی تو سوائے دو آدمیوں کے سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے، امام مہدی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک کی زیارت کریں گے، پھر شام روانہ ہوں گے، دمشق پہنچ کر عیسائیوں سے ایک خونریز جنگ ہوگی جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوجائیں گے، بالآخر مسلمانوں کو فتح ہوگی، امام مہدی ملک کا انتظام سنبھال کر قسطنطنیہ فتح کرنے کے لئے عازمِ سفر ہوں گے۔
قسطنطنیہ فتح کرکے امام مہدی شام کے لئے روانہ ہوں گے، شام پہنچنے کے کچھ ہی عرصے بعد دجال نکل پڑے گا، دجال شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گا اور گھومتا گھماتا دمشق کے قریب پہنچ جائے گا، عصر کی نماز کے وقت لوگ نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اُترتے ہوئے نظر آئیں گے، دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا، بالآخر بابِ لُدّ پر پہنچ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کا کام تمام کردیں گے، اس وقت رُوئے زمین پر کوئی کافر نہیں رہے گا، سب مسلمان ہوں گے، حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کی عمر پینتالیس، اڑتالیس یا انچاس برس ہوگی کہ آپ کا انتقال ہوجائے گا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی نماز جنازہ پڑھائیں گے، بیت المقدس میں انتقال ہوگا اور وہیں دفن ہوں گے۔
خروجِ دجال
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے دوسری علامت خروجِ دجال ہے، احادیث مبارکہ میں دجال کا ذکر بڑی وضاحت سے آیا ہے، ہر نبی دجال کے فتنے سے اپنی اُمت کو ڈراتا رہا ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں، دجال کا ثبوت احادیث متواترہ اور اِجماعِ اُمت سے ہے۔ دجال یہودی ہوگا، خدائی کا دعویٰ کرے گا، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہوگا، دائیں آنکھ سے کانا ہوگا، دائیں آنکھ کی جگہ انگور کی طرح کا اُبھرا ہوا دانہ ہوگا، زمین پر اس کا قیام چالیس دن ہوگا، للہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے مختلف خرقِ عادت اُمور اور شعبدے ظاہر فرمائیں گے، وہ لوگوں کو قتل کرکے زندہ کرے گا، وہ آسمان کو حکم کرے گا آسمان بارش برسائے گا، زمین کو حکم کرے گا زمین غلہ اُگائے گی، ایک ویرانے سے گزرے گا اور اسے کہے گا: اپنے خزانے نکال! وہ اپنے خزانے باہر نکالے گی، پھر وہ خزانے شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے، آخر میں ایک شخص کو قتل کرے گا، پھر زندہ کرے گا، اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا تو نہیں کرسکے گا، دجال پوری زمین کا چکر لگائے گا، کوئی شہر ایسا نہیں ہوگا جہاں دجال نہیں جائے گا، سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے، کہ ان دو شہروں میں فرشتوں کے پہرے کی وجہ سے وہ داخل نہیں ہوسکے گا، دجال کا فتنہ تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔ حضرت امام مہدی جب قسطنطنیہ کو فتح فرماکر شام تشریف لائیں گے، دمشق میں مقیم ہوں گے کہ شام اور عراق کے درمیان میں سے دجال نکلے گا، پہلے نبوت کا دعویٰ کرے گا، یہاں سے اصفہان پہنچے گا، اصفہان کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہوجائیں گے، پھر خدائی کا دعویٰ شروع کردے گا اور اپنے لشکر کے ساتھ زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، بہت سے ملکوں سے ہوتا ہوا یمن تک پہنچے گا، بہت سے گمراہ لوگ اس کے ساتھ ہوجائیں گے، یہاں سے مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوگا، مکہ مکرمہ کے قریب آکر ٹھہرے گا، مکہ مکرمہ کے گرد فرشتوں کا حفاظتی پہرہ ہوگا، جس وجہ سے وہ مکہ مکرمہ میں داخل نہ ہوسکے گا، پھر مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوگا یہاں بھی فرشتوں کا حفاظتی پہرہ ہوگا، دجال مدینہ منورہ میں بھی داخل نہ ہوسکے گا، اس وقت مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس سے کمزور ایمان والے گھبراکر مدینہ منورہ سے باہر نکل جائیں گے اور دجال کے فتنے میں پھنس جائیں گے۔ مدینہ منورہ میں ایک اللہ والے دجال سے مناظرہ کریں گے، دجال انہیں قتل کردے گا، پھر زندہ کرے گا، وہ کہیں گے اب تو تیرے دجال ہونے کا پکا یقین ہوگیا ہے، دجال انہیں دوبارہ قتل کرنا چاہے گا مگر نہیں کرسکے گا۔ یہاں سے دجال شام کے لئے روانہ ہوگا، دمشق کے قریب پہنچ جائے گا، یہاں حضرت امام مہدی پہلے سے موجود ہوں گے کہ اچانک آسمان سے حضرت عیسیٰ اُتریں گے، حضرت امام مہدی تمام انتظامات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے کرنا چاہیں گے وہ فرمائیں گے منتظم آپ ہی ہیں، میرا کام دجال کو قتل کرنا ہے، اگلی صبح حضرت عیسیٰ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ دجال کے لشکر کی طرف پیش قدمی فرمائیں گے، گھوڑے پر سوار ہوں گے، نیزہ ان کے ہاتھ میں ہوگا، دجال کے لشکر پر حملہ کردیں گے، بہت گھمسان کی لرائی ہوگی، حضرت عیسیٰ کے سانس میں یہ تاثیر ہوگی کہ جہاں تک ان کی نگاہ جائے گی وہیں تک سانس پہنچے گا اور جس کافر کو آپ کے سانس کی ہوا لگے گی وہ اسی وقت مرجائے گا، دجال حضرت عیسیٰ کو دیکھ کر بھاگنا شروع کردے گا، آپ اس کا پیچھا کریں گے ”بابِ لُدّ“ پر پہنچ کر دجال کو قتل کردیں گے۔
نزولِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے تیسری علامت حضرت عیسیٰ کا آسمانوں سے نازل ہونا اور دجال کو قتل کرنا ہے، نزولِ عیسیٰ کا عقیدہ قرآن کریم، احادث متواترہ اور اجماع اُمت سے ثابت ہے، اس کی تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا فرض ہے، اور مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے، اس عقیدے کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ آسمانوں سے حضرت عیسیٰ کے نازل ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت امام مہدی مدینہ منورہ سے ہوکر دمشق پہنچ چکے ہوں گے اور دجال بھی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے دھتکارا ہوا دمشق کے قریب پہنچ گیا ہوگا، امام مہدی اور یہودیوں کے درمیان جنگیں زوروں پر ہوں گی کہ ایک دن عصر کی نماز کا وقت ہوگا، اَذانِ عصر ہوچکی ہوگی، لوگ نماز کی تیاری میں مشغول ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیٰ دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان س اُترتے ہوئے نظر آئیں گے، سر نیچے کریں گے تو پانی کے قطرے گریں گے، سر اُونچا کریں گے تو چمک دار موتیوں کی طرح دانے گریں گے، دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی جانب کے سفید رنگ کے مینار پر اُتریں گے، وہاں سے سیڑھی کے ذریعے نیچے اُتریں گے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام عدل و انصاف قائم کریں گے، عیسائیوں کی صلیب توڑ دیں گے، (صلیب توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیوں کے عقیدہٴ صلیب کو غلط قرار دیں گے) خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کو ختم کردیں گے، یہودیوں اور دجال کو قتل کریں گے، یہاں تک کہ یہودی ختم ہوجائیں گے، جس کافر کو ان کا سانس پہنچے گا وہ وہیں مرجائے گا، ”بابِ لُدّ“ پر دجال کو قتل کریں گے، مال کی اتنی فراوانی ہوجائے گی کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔ حضرت اِمام مہدی کی وفات کے بعد تمام انتظام حضرت عیسیٰ سنبھالیں گے، آسمانوں سے اُترنے کے بعد بھی حضرت عیسیٰ نبی ہی ہوں گے، کیونکہ نبی منصب نبوت سے کبھی معزول نہیں ہوتا، لیکن اس وقت اُمت محمدیہ کے تابع مجدد اور عادل حکمران کی حیثیت میں ہوں گے، دجال کو قتل کرنے کے بعد حضرت عیسیٰ مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمائیں گے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں کوہِ طور پر لے جائیں گے، چالیس یا پینتالیس برس کے بعد ان کی وفات ہوگی، اس دوران نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی، مدینہ منورہ میں انتقال ہوگا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہٴ مبارک میں دفن ہوں گے، آپ کے بعد قحطان قبیلے کے ایک شخص جہجاہ حاکم بنیں گے، ان کے بعد کئی نیک و عادل حکمران آئیں گے، پھر آہستہ آہستہ نیکی کم ہونا شروع ہوجائے گی اور بُرائی بڑھنے لگے گی۔
یاجوج ماجوج
امام مہدی کے انتقال کے بعد تمام انتظامات حضرت عیسیٰ کے ہاتھ میں ہوں گے اور نہایت سکون و آرام سے زندگی بسر ہو رہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ پر وحی نازل فرمائیں گے کہ میں ایک ایسی قوم نکالنے والا ہوں جس کے ساتھ کسی کو مقابلے کی طاقت نہیں ہے، آپ میرے بندوں کو کوہِ طور پر لے جائیں، اس قوم سے یاجوج ماجوج کی قوم مراد ہے۔ یاجوج ماجوج کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے، یہ قوم یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہے، شمال کی طرف بحر منجمد سے آگے یہ قوم آباد ہے، ان کی طرف جانے والا راستہ پہاڑوں کے درمیان ہے، جس کو حضرت ذوالقرنین نے تانبا پگھلاکر لوہے کے تختے جوڑ کر بند کردیا تھا، بڑی طاقت ور قوم ہے دو پہاڑوں کے درمیان نہایت مستحکم آہنی دیوار کے پیچھے بند ہے، قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹ کر گر پڑے گی اور یہ قوم باہر نکل آئے گی اور ہر طرف پھیل جائے گی اور فساد برپا کرے گی۔ یاجوج ماجوج آہنی دیوار ٹوٹنے کے بعد ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے نظر آئیں گے، جب ان کی پہلی جماعت بحیرہٴ طبریہ پر سے گزرے گی تو اس کا سارا پانی پی جائے گی، جب دوسری جماعت گزریے گی تو وہ کہے گی: ”یہاں کبھی پانی تھا“ یاجوج ماجوج کی وجہ سے حضرت عیسیٰ اور مسلمان بڑی تکلیف میں ہوں گے، کھانے کی قلّت کا یہ عالم ہوگا کہ بیل کا سر سو دینار سے بھی قیمتی اور بہتر سمجھا جائے گا، حضرت عیسیٰ یاجوج ماجوج کے لئے بددُعا کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک بیماری پیدا کردیں گے جس سے سارے مرجائیں گے، اور زمین بدبودار تعفن سے بھر جائے گی، حضرت عیسیٰ کی دُعا سے اللہ تعالیٰ بڑی بڑی گردنوں والے پرندے بھیجیں گے جو ان کو اُٹھاکر جہاں اللہ تعالیٰ چاہیں گے پھینک دیں گے، پھر موسلا دھار بارش ہوگی جو ہر جگہ ہوگی کوئی مکان یا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہوگا جہاں پر یہ بارش نہ پہنچے، وہ بارش پوری زمین دھوکر صاف و شفاف کردے گی اور بدبو ختم ہوجائے گی۔
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے ایک بڑی علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں اس کا ذکر موجود ہے۔ دُھویں کے ظاہر ہونے اور زمین دھنس جانے کے واقعے کے بعد ذوالحجہ کے مہینے میں دسویں ذوالحجہ کے بعد اچانک ایک رات بہت لمبی ہوگی کہ مسافروں کے دل گھبراکر بے قرار ہوجائیں گے، بچے سو سو کر اُکتا جائیں گے، جانور باہر کھیتوں میں جانے کے لئے چلانے لگیں گے، تمام لوگ ڈر اور گھبراہٹ سے بے قرار ہوجائیں گے، جب تین راتوں کے برابر وہ رات ہوچکے گی تو سورج ہلکی سی روشنی کے ساتھ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اور سورج کی حالت ایسی ہوگی جیسے اس کو گہن لگا ہوتا ہے، اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا اور کسی کا ایمان یا گناہوں سے توبہ قبول نہ ہوگی، سورج آہستہ آہستہ اُونچا ہوتا جائے گا، جب اتنا اُونچا ہوجائے گا جتنا دوپہر سے کچھ پہلے ہوتا ہے تو واپس مغرب کی طرف غروب ہونا شروع ہوجائے گا اور معمول کے مطابق غروب ہوجائے گا، پھر حسب معمول طلوع و غروب ہوتا رہے گا۔ مغرب سے سورج طلوع ہونے واقعے کے ایک سو بیس سال بعد قیامت کے لئے صور پھونکا جائے گا۔
دابۃالارض کا زمین سے نکلنا
قیامت کی بڑی علامتوں میں سے ایک بڑی علامت دابة الارض کا زمین سے نکلنا ہے، اس کا ذکر قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔ مغرب سے سورج طلوع ہونے کے واقعے کے کچھ ہی روز بعد مکہ مکرمہ میں واقع پہاڑ صفا پھٹے گا اور اس سے ایک عجیب و غریب جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا، اور بڑی تیزی کے ساتھ ساری زمین میں پھر جائے گا، اس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہوگا، ایمان والوں کی پیشانی پر حضرت موسیٰ کے عصا سے ایک نورانی لکیر کھینچ دے گا، جس سے ان کا سارا چہرہ روشن ہوجائے گا، اور کافروں کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان کی انگوٹھی سے سیاہ مہر لگادے گا، جس سے اس کا سارا چہرہ میلا ہوجائے گا، لوگوں کے مجمع میں ایمان والوں کو کہے گا: یہ ایمان دار ہے، اور کافر کے بارے میں کہے گا کہ: یہ کافر ہے، اس کے بعد وہ غائب ہوجائے گا۔
ٹھنڈی ہوا کا چلنا اور تمام مسلمانوں کا وفات پاجانا
جانور والے واقعے کے کچھ ہی روز بعد جنوب کی طرف سے ایک ٹھنڈی اور نہایت فرحت بخش ہوا چلے گی، جس سے تمام مسلمانوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا، جس سے وہ سب مرجائیں گے، حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان کسی غار میں چھپا ہوا ہوگا اس کو بھی یہ ہوا پہنچے گی اور وہ وہیں مرجائے گا، اب رُوئے زمین پر کوئی مسلمان نہیں ہوگا، سب کافر ہوں گے اور شرار الناس یعنی بُرے لوگ رہ جائیں گے۔
حبشیوں کی حکومت اور بیت اللہ کا شہید ہونا
جب سارے مسلمان مرجائیں گے اور رُوئے زمین پر صرف کافر رہ جائیں گے اس وقت ساری دُنیا میں حبشیوں کا غلبہ ہوجائے گا اور انہی کی حکومت ہوگی، قرآنِ کریم دلوں اور کاغذوں سے اُٹھالیا جائے گا، حج بند ہوجائے گا، دلوں سے خوفِ خدا اور شرم و حیا بالکل اُٹھ جائے گی، لوگ برسر عام بے حیائی کریں گے، بیت اللہ شریف کو شہید کردیا جائے گا، حبشہ کا رہنے والا چھوٹی پنڈلیوں والا ایک شخص بیت اللہ شریف کو گرائے گا۔
آگ کا لوگوں کو ملک شام کی طرف ہانکنا
قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے آخری علامت آگ کا نکلنا ہے، قیامت کا صور پھونکے جانے سے پہلے زمین پر بت پرستی اور کفر پھیل جائے گا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے شام میں جمع ہونے کے اسباب پیدا ہوں گے، شام میں حالات اچھے ہوں گے، لوگ وہاں کا رخ کریں گے، پھر یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ارضِ محشر یعنی شام کی طرف ہانکے گی، جب سب لوگ ملک شام میں پہنچ جائیں گے تو یہ آگ غائب ہوجائے گی، اس کے بعد عیش و آرام کا زمانہ آئے گا، لوگ مزے سے زندگی بسر کر رہے ہوں گے، کچھ عرصہ اسی حالت میں گزرے گا کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے گی
صور پھونکا جانا اور قیامت کا قائم ہونا
ان تمام علامات کے واقع ہوجانے کے بعد عیش و آرام کا زمانہ آئے گا، محرم کی دس تاریخ اور جمعہ کا دن ہوگا، لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوں گے کہ اچانک قیامت قائم ہوجائے گی، دو آدمیوں نے کپڑا پھیلا رکھا ہوگا، اس کو سمیٹ نہ سکیں گے اور نہ ہی خرید و فروخت کرسکیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص اپنی اُونٹنی کا دُودھ لے کر جائے گا اور اسے پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص اپنے پانی والے حوض کی مرمت کر رہا ہوگا اور اس سے پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص نے نوالہ منہ کی طرف اُٹھایا ہوگا اسے منہ میں ڈال نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ قیامت حضرت اسرافیل کے صور پھونکنے سے برپا ہوگی جس کی آواز پہلے ہلکی اور پھر اس قدر ہیبت ناک ہوگی کہ اس سے سب جاندار مرجائیں گے، زمین و آسمان پھٹ جائیں گے، ہر چیز ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہوجائے گی، چالیس سال بعد دوبارہ حضرت اسرافیل صور پھونکیں گے جس سے سب زندہ ہوکر میدانِ محشر میں جمع ہونا شروع ہوجائیں گے۔