Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

اب خون تجربہ گاہوں میں بنے گا

شائع 26 مارچ 2017 01:31pm
سائنس
فائل فوٹو فائل فوٹو

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے تجربہ گاہ میں بڑے پیمانے پر خون کے سرخ خلیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس طریقے سے بنائے جانے والے خون کو عطیہ کیا جا سکتا ہے۔

سرخ خلیے اب بھی تجربہ گاہ میں تیار کیے جا سکتے ہیں لیکن مسئلہ ان کی مقدار کا ہے۔

   برطانیہ کی یونیورسٹی آف برسٹل اور قومی ادارۂ صحت این ایچ ایس کے سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ وضع کیا ہے جس کی مدد سے غیرمحدود مقدار میں خون تیار کیا جا سکتا ہے۔

پرانی تکنیک کے تحت ایک خاص قسم کے اسٹیم سیل حاصل کیے جاتے تھے جو سرخ خلیے بناتے ہیں اور پھر ان کی مدد سے تجربہ گاہ میں خون تیار کیا جاتا تھا۔

تاہم ہر اسٹیم سیل صرف 50 ہزار سرخ خلیے بنانے کے بعد ٹھپ ہو جاتا تھا۔ یاد رہے کہ خون کے صرف ایک ملی لیٹر میں 50 لاکھ کے قریب، جب کہ خون کی ایک تھیلی میں تقریباً دس کھرب سرخ خلیے ہوتے ہیں۔

اب برسٹل یونیورسٹی کی ٹیم نے اسٹیم سیل کو ایک ایسے مرحلے میں استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جب وہ لامتناہی مقدار میں سرخ خلیے تیار کر سکتے ہیں۔

ایک محقق ڈاکٹر جان فرین نے کہاکہ 'ہم نے ہسپتال میں استعمال کیلئے سرخ خلیے بنانے کا قابلِ عمل وضع کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ہم نے اس کی مدد سے لیٹروں کے حساب سے خون تیار کیا ہے۔'

تاہم ابھی اس تحقیق میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔

سائنس دان خون تیار کر سکتے ہیں، تاہم اس ٹیکنالوجی کو صنعتی پیمانے پر نافذ کرنے کیلئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

ایک اور تحقیق کار پروفیسر ڈیوڈ اینسٹی نے بی بی سی کو بتایاکہ 'بایوانجنیئرنگ کا معاملہ ابھی حل طلب ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر خون تیار کرنا آسان نہیں، اور ہماری تحقیق کا اگلا مرحلہ پیداوار کو توسیع دینا ہے۔'

ایک اور مسئلہ بڑے پیمانے پر تیار کردہ خون کی قیمت کا بھی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کے فوائد ظاہر ہیں۔ بعض اوقات نایاب خون کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔ پروفیسر اینسٹی کہتے ہیں کہ'اس ٹیکنالوجی کا پہلا استعمال نایاب اقسام کے خون پر ہو گا۔'

تجربہ گاہ میں تیار کردہ خون کے مریضوں پر ٹرائل اس سال کے آخر میں متوقع ہیں۔

BBCبشکریہ