امریکا اور یورپ کےانسانی چڑیا گھر
آج کے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردارامریکا اور یورپی ممالک میں 60 سال پہلے تک ایسے چڑیا گھر موجود تھے جن میں سیاہ فام اور ایشیائی باشندوں کو نمائش کیلئے رکھا جاتا تھا۔، اور گورے انگریز انہیں دیکھنے کیلئے ٹکٹ خریدتے تھے۔
میل آن لائن نے اپنی رپورٹ میں 1958ءمیں نیویارک، برسلز، برلن، سینٹ لوئس اور دیگر امریکی و یورپی شہروں میں موجودایسے ہی چڑیا گھروں کی تصاویر شائع کی ہیں جنہیں دیکھ کر آپ ان کا اصلی اور مکروہ چہرہ پہچان جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ان مقید سیاہ فام اور ایشیائی باشندے اپنے بچوں سمیت پنجروں میں رہتے تھے ۔ ان کے جسم پر لباس برائے نام ہوتا تھا۔ چڑیا گھروں کے علاوہ ان کی نمائشوں کا بھی انعقاد کیا جاتا تھا جو لاکھوں کی تعداد میں گورے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہوتی تھیں۔
1906ءمیں نیویارک کے ’برونکس زو‘نامی انسانی چڑیا گھر میں سینکڑوں ایشیائی و سیاہ فام باشندوں کی نمائش کا انعقاد کیا گیاجہاں ان سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ روزانہ تقریباً40ہزار سیاح ان لاچار قیدیوں کو دیکھنے آتے تھے۔ اس نمائش میں کانگو کے سیاہ فام باشندے اوٹا بینگاکو بھی نمائش کیلئے پیش کیا گیا جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ ارتقاءکا مسنگ لنک ہے۔ آنے والے گورے اوٹا بینگا کا خوب تمسخر اڑاتے تھے۔
اس بے رحم نمائش پر کچھ لوگوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا جس پر اوٹا کو رہا کر دیا گیا لیکن اس نے لوگوں کے سلوک سے تنگ آ کر 6سال بعد خودکشی کر لی۔
ان انسانی چڑیا گھروں میں بڑے مردوخواتین کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی جانوروں کی طرح نمائش کیلئےپیش کیا جاتا اور ان سے انتہائی بے رحمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔
بشکریہ ڈیلی میل
Comments are closed on this story.