Aaj News

ہفتہ, نومبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Awwal 1446  

کوہِ نور اور اس سے متعلق 6 کہانیاں

شائع 11 دسمبر 2016 01:08pm
فائل فوٹو فائل فوٹو

کوہ نور کا شمار دنیا کے متنازع ترین ہیروں میں ہوتا ہے۔

یہ ہیرا کئی صدیوں تک معرکہ آرائیوں اور سازشوں کا موضوع بنا رہا ہے، اور مغل شہزادوں، ایرانی جنگجوؤں، افغان حکمرانوں اور پنجابی مہاراجوں کے قبضے میں رہا ہے۔

یہ105قیراط وزنی قیمتی پتھر 19 صدی کے وسط میں برطانویوں کے ہاتھ آیا اور اب شاہی زیور کے طور پر ٹاور آف لندن میں نمائش کیلئے رکھا ہوا ہے۔

اس ہیرے کی ملکیت بہت سارے ہندوستانیوں کیلئے جذباتی معاملہ ہے، بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ برطانیہ نے یہ ہیرا ان سے چرا لیا تھا۔

ولیم ڈیلرمپل اور انیتا آنند نے اس موضورع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام 'کوہ نور: دنیا کا بدنام ترین ہیرا۔' جس میں مصفین نے اس پیش قیمت ہیرے کے گرد گھومنے والی افسانوی کہانیوں یا غلط فہمیوں کا احاطہ کیا ہے۔

سنہ 1849 میں جب کوہ نور گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی کے ہاتھ آیا تو انہوں نے اس کی باضابطہ تاریخ کے ہمراہ اسے ملکہ وکٹوریا کو بھیجنے کی تیاری کی۔

انہوں نے اس ہیرے کی تحقیق کا کام دہلی میں ایک جونیئر اسسٹنٹ مجسٹریٹ تھیو میٹکاف کو سونپا جو جوئے اور پارٹیوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔

لیکن میٹکاف نے افواہوں اور گپ شپ سے کچھ زیادہ ہی استفادہ کر لیا۔ اس وقت سے لے کر لاتعداد مضامین میں وہی کہانیاں بیان کی گئی ہیں یہاں تک کہ کوہ نور کے حوالے سے ویکیپیڈیا پر بھی اس بات کو حقیقت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

ذیل میں کوہ نور سے متعلق ان چھ 'افسانوی کہانیوں' کا ذکر ہے جس کا تذکرہ کتاب میں کیا گیا ہے۔

حقیقت: کوہ نور جب برطانیہ آیا تو اس کا وزن 3۔190 میٹر قراط تھا اور اس سے ملتے جلتے کم از کم دو ہیرے اور بھی تھے، دریائے نور (اندازاً -195-175 میٹرک قراط وزنی) جو اب تہران میں ہے، اور مغل اعظم ہیرا (9۔189 میٹرک قراط) جس کے بارے میں جدید جوہریوں کا خیال ہے کہ وہ اورلوف ہیرا ہے۔ یہ تینوں ہیرے سنہ 1739 میں ہندوستان پر ایرانی حکمران نادر شاہ کے حملے کے بعد یہاں سے لوٹے گئے مال کے ساتھ ایران لے جائے گئے تھے۔

انیسویں صدی کے اوائل میں جب یہ ہیرا پنجاب پہنچا اور اس کو ایک ممتاز اور افضل ہیرا سمجھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

حقیقت: غیرتراشیدہ کوہ نور کے درمیان میں پیلے داغ تھے جو اس کے وسط تک موجود تھے، ان میں ایک دھبہ بڑا تھا اور روشنی کو منعکس نہیں کرتا تھا۔

اسی وجہ سے ملکہ وکٹوریا کے شوہر پرنس البرٹ کوہ نور کو دوبارہ تراشنے کے حق میں تھے۔

کوہ نور دنیا کا سب سے بڑا ہیرا نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دنیا کا 90واں بڑا ہیرا ہے۔

دراصل جو سیاح اسے ٹاور آف لندن میں دیکھتے ہیں وہ اکثر اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کتنا چھوٹا سا ہے، خاص طور پر جب وہ اس کا موازنہ قریب ہی نمائش کیلئے رکھے گئے دو بڑے کلینن ہیروں سے کرتے ہیں۔

حقیقت: یہ جاننا ناممکن ہے کہ کوہ نور کی دریافت کب اور کہاں ہوئی۔ اسی وجہ سے یہ ایک پراسرار پتھر ہے۔

کچھ یہ بھی خیال کرتے ہیں کوہ نور دراصل شیامنتک پتھر ہے جس کا ذکر ہندوؤں کے بھگوان کرشنا سے متعلق مذہبی کتاب بھگوت پران میں ملتا ہے۔

تھیو میٹکاف کی رپورٹ کے مطابق یہی روایت ہے کہ 'یہ ہیرا کرشنا کی زندگی کے دور میں ہی نکالا گیا تھا۔'

لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں یہ ہیرا کان سے نہیں نکالا گیا تھا بلکہ شاید جنوبی انڈیا میں خشک دریائی سطح سے نکالا گیا تھا۔ انڈین ہیرے کانوں سے نہیں نکلتے بلکہ دریائی زمین سے ملتے ہیں۔

حقیقت: ہندو اور سکھ ہیروں کو دوسرے جواہرات سے زیادہ قیمتی سمجھتے تھے جبکہ مغل اور ایرانی بڑے، غیرتراشیدہ اور چمکتے پتھروں کو ترجیح دیتے تھے۔

بلاشبہ کوہ نور کا شمار مغلوں کے اس پیش قیمت خزانے میں ہوتا تھا جس میں بہترین اور غیرمعمولی جواہرات موجود تھے، لیکن اس خزانے میں بیشتر قیمتی پتھر ہیرے نہیں تھے۔ مغل بدخشان کے سرخ سپینل اور برما کے سرخ یاقوتوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔

یہاں تک کے مغل بادشاہ ہمایوں نے بابر کے ایک ہیرے کو ایرانی بادشاہ شاہ طہماسپ کو جلاوطنی کے دوران تحفے میں دے دیا تھا۔ یہ خیال بھی ہے کہ یہی کوہ نور تھا۔

بابر کا یہ ہیرا دوبارہ دکن پہنچا لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ دوبارہ کب اور کیسے مغلوں کے پاس پہنچا۔

معروف قصہ ہے کہ نادر شاہ نے مغل بادشاہ کو اس کے ہیرے سے محروم کرنے پر اکسایا، جو اس نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا۔

لیکن محمد شاہ کے پاس یہ واحد قیمتی پتھر نہیں تھا جسے اپنی پگڑی میں چھپا کر رکھتے، اور جسے نادر شاہ چالاکی سے پگڑی تبدیل کر کے حاصل کر لیتے۔

ایرانی مورخ ماروی کے مشاہدے کے مطابق، بادشاہ قیمتی پتھر اپنی پگڑی نہیں چھپا نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس وقت وہ انتہائی دلکش اور قیمتی شاہی تخت کاحصہ تھا جسے شاہ جہان کا مور تخت کہا جاتا تھا۔

وہ اپنے ذاتی مشاہدے کے بارے میں لکھتے ہیں کوہ نور اس غیر معمولی تخت کی چھت پر ایک مور کے سر پر نصب تھا۔

چھٹی افسانوی کہانی: کوہ نور کو اناڑی پن سے تراشا گیا جس سے اس کا سائز کم ہوگیا

حقیقت: فرانس کے جواہر کے تاجر اور مسافر یاں پیتستے ٹوورنیئر کو مغل بادشاہ اورنگزیب نے اپنے ذاتی جواہرات دیکھنے کی اجازت دی تھی اور ان کے مطابق پتھر تراش ہوٹینسیو بورگیو نے ایک بڑے ہیرے کو جلا دیا تھا نتیجتا اس کا سائز کم ہو گیا۔

لیکن انہوں نے اس ہیرے کی شناخت مغل اعظم ہیرے کے طور پر کی تھی جو ہیروں کے تاجر میر جملا نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کو تحفے میں دیا تھا۔

دور جدید کے ماہرین کو یقین ہے کہ مغل اعظم ہیرا دراصل اولوف ہے، جو اس وقت کریملن میں روسی ملکہ کیتھرین کی عصائے شاہی پر نصب ہے۔

مغلوں کے دیگر ہیروں کے بارے میں تقریباً سبھی بھول چکے ہیں اور تاریخی حوالوں میں تمام ہندوستانی غیرمعمولی ہیروں کا ذکر کوہ نور سمجھ کر ہی کیا جاتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو