Aaj News

بدھ, اپريل 23, 2025  
25 Shawwal 1446  

خدارا!!! حادثات کو فسادات کا رنگ نہ دیں

کراچی غریب پرور شہر، آگ میں نہ جھونکیں
شائع 10 اپريل 2025 12:58pm

کراچی 1985 سے قبل پرامن اور روشنیوں کا شہر مانا جاتا تھا، چھوٹے موٹے واقعات ہوتے رہتے تھے لیکن پھر دو واقعات نے اس شہر کے امن کو کھا لیا۔ ایک بچی کو بس نے کچل ڈالا تو قصبہ کالونی میں شرپسندوں نے ذاتی لڑائی کو فسادات کی شکل دے ڈالی، جس کے بعد شہر کا امن غارت ہوا اور کئی دہائیوں تک اس شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا، اپنا پرایا کوئی بھی اس آگ سے نہ بچ سکا، گروہ بندیاں، سیاسی مفادات، بھتہ خوری، گینگ وار، غرض اس شہر نے کیا کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن یہ اس شہر کے باسیوں کا دل گردہ ہے کہ سب کچھ برداشت کیا اور آخر کار کئی دہائیوں کے بعد شہر نے سکون کی سانس لی۔ چوری، ڈکیتی ہو یا پھر حادثات دنیا کا کوئی شہر بھی اس سے محفوظ نہیں لیکن کہیں بھی ان واقعات کی وجہ سے کسی کمیونٹی یا کسی خاص طبقے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا۔

کراچی میں گزشتہ کئی برس سے بھاری گاڑیوں سے حادثات میں بے تحاشا اضافہ ہوا، سندھ حکومت، ٹریفک پولیس اور پولیس کی جانب سے حادثات کے روک تھام کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے گئے لیکن ان پر عمل درآمد نہ کرایا جاسکا۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور تصویر یوں بنائی گئی کہ جیسے ایک کمیونٹی کے دوسرے کو ہدف بنا رکھا ہے۔ سیاست چمکانے کے لیے شہر کے امن کو داؤ پر لگا دیا گیا۔

کیا جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو وہ کسی شخص کی قومیت پہلے پوچھتا ہے؟ کیا گاڑی کسی کو ٹکر مارنے سے پہلے یہ پوچھتی ہے کہ آپ کون ہو؟ حادثہ تو بس حادثہ ہوتا ہے، اس میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ڈرائیوروں یا سڑک پر چلنے والوں دونوں سے ہوتا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نارتھ کراچی میں گزشتہ رات کم عمر ڈرائیور کو تیز رفتاری سے ڈمپر چلاتے ہوئے بعض افراد نے روکا، انہوں نے ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنایا، ڈرائیور نے سامنے کھڑی دو موٹر سائیکلوں کو روند ڈالا، کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا، البتہ ایک شخص زخمی ہوگیا۔ مشتعل افراد نے مجموعی طور پر شہر میں 9 بھاری گاڑیوں کو جلا ڈالا۔ کچھ ہی دیر بعد ڈمپر ایسوسی ایشن اور مالکان نے احتجاج کیا اور سہراب گوٹھ پر سپر ہائی وے کو کچرا اور پتھر ڈال کر بند کردیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کم عمر نوجوان کو ڈمپر چلانے کی اجازت کس نے دی؟ ایک ڈمپر کئی کروڑ کا ہوتا ہے، اس کے مالک نے ڈمپر ایک بچے کے ہاتھ میں کیسے دے دیا؟ ٹریفک پولیس نے ڈمپر کو سڑک پر خود کیوں نہیں روکا؟ ڈمپر کو اپنی تحویل میں کیوں نہیں لیا؟ اگر پولیس اپنا کردار ذمہ داری سے ادا کرتی تو شاید نہ ڈمپر جلائے جاتے نہ ڈمپر ایسوسی ایشن کو احتجاج کے لیے سڑک بند کرنے کی ضرورت پڑتی۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دو روز قبل بھاری گاڑیوں کے چلنے کا طریقہ کار وضع کیا اور شہری علاقوں میں بھاری گاڑی کی حد رفتار کو 30 کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر کیا، اسی طرح گاڑیوں کی فٹنس سمیت کئی چیزوں پر سختی سے نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ انھوں نے ہدایات پر فوری عمل کا حکم دیا لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی کارروائی کے لیے منصوبہ بندی میں کچھ وقت لگتا ہے، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے غیر ذمہ داری یا سستی و کاہلی کا مظاہرہ کیا لیکن اس کی بنیاد پر قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

پولیس نے ڈمپروں کو آگ لگانے والے ملزمان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے، متعدد افراد کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ویڈیوز کے ذریعے مزید ملزمان کی شناخت کی جارہی ہے، ایس ایس پی سینٹرل نے واضح کردیا ہے کہ شہر کا امن اولین ترجیح ہے، شرپسندوں کو قانون کے کٹھہرے میں لایا جائے گا۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شہر میں رواں سال بھاری گاڑیوں سے حادثات میں 78 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ایک روز قبل بھی کورنگی میں ویٹا چورنگی پر ٹریلر کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار جاں بحق ہوا تھا۔ جبکہ ٹریفک حادثات میں جاں بحق افراد کی تعداد 256 ہوچکی ہے، اسی طرح کچھ دن قبل ملیر ہالٹ کے علاقے میں واٹر ٹینکر کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار اپنی 8 ماہ کی حاملہ اہلیہ کے ساتھ جاں بحق ہوگیا تھا۔

یہ بات ایک بار پھر کہنا ضروری ہے کہ حادثہ نہ عمر دیکھتا ہے اور جنس، حادثہ تو بس حادثہ ہوتا ہے، حادثے کی کوئی قوم بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو اپنے گروہی مفاد کے لیے حادثات کو فسادات کا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں اس اقدام سے باز رہنا چاہیے۔ عوام کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے تاکہ وہ کسی سازش کا حصہ نہ بنیں۔

کراچی ڈھائی تین کروڑ انسانوں کا غریب پرور شہر ہے، کہتے ہیں اس کا دل بہت بڑا ہے، کوئی بھی کہیں سے آجائے، اسے ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں سما لیتا ہے۔ نہ یہ نسل دیکھتا اور نہ قومیت۔ اگر یہاں بسنے والے کراچی کو واقعی ماں سمجھتے ہیں تو اس کی حفاظت سب پر فرض ہے، اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے بات چیت اور مذاکرات سے حل کریں، تصادم سے بچیں، کسی سازش کا حصہ نہ بنیں۔ کئی دہائی کے بعد شہر کی شامیں پھر سے جوان ہورہی ہیں، اس شہر کو پھر سے اندھیروں میں دھکیلنے کی کوشش نہ کی جائے، شہر نے بہت لاشے اٹھا لیے، اب مزید اٹھانے کی سکت ہے اور نہ ہمت۔

karachi

Karachi Heavy Traffic Accidents