Aaj News

اتوار, مارچ 16, 2025  
15 Ramadan 1446  

مفتی منیر شاکر پر حملے کی تحقیقات میں پیش رفت، صرف 600 گرام دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا

مفتی منیر شاکر کے ہجرے کے مرکزی دورازے کے قریب دیسی ساختہ بارودی مواد کا دھماکا ہوا، پولیس
شائع 16 مارچ 2025 11:11am

پشاور میں مفتی منیر شاکر پر ہونے والے دھماکے کی تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ پولیس کے مطابق دھماکے میں 600 گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا، جو مسجد کے چھوٹے گیٹ کے ساتھ نصب تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جیسے ہی مفتی منیر شاکر مسجد میں داخل ہوئے، بارودی مواد پھٹ گیا، جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے جبکہ تین افراد زخمی ہوئے۔

حکام کے مطابق جائے وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز اور دیگر اہم شواہد اکٹھے کر لیے گئے ہیں، جبکہ تحقیقات مزید جاری ہیں تاکہ واقعے کے ذمہ داروں کا سراغ لگایا جا سکے۔

گزشتہ روز پشاور کے علاقے ارمڑ میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں مفتی منیر شاکر انتقال کر گئے تھے۔ مفتی منیر شاکر کے ساتھ تین مزید افراد زخمی ہوئے تھے، زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں مفتی منیر شاکر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔

تھانہ ارمڑ کے ایس ایچ او نور محمد کے مطابق مفتی منیر شاکر کے ہجرے کے مرکزی دورازے کے قریب دیسی ساختہ بارودی مواد کا دھماکا ہوا۔ دھماکے میں زخمی ہونے والوں میں خوشحال، عابد اور سید نبی بھی شامل ہیں۔

جگہ جگہ خون کے نشانات، بموں اور گولیوں کے بکھرے خول: جعفر ایکسپریس کے اطراف تباہی کے مناظر آج بھی واضح

خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 9 دہشت گرد ہلاک، 2 جوان شہید

سی سی پی او قاسم علی خان کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرلئے ہیں، مفتی منیر شاکر دھماکے کا اصل ہدف تھا، واقعے سے متعلق مزید تحقیقات جاری ہیں، پولیس اور سی ٹی ڈی مشترکہ تفتیش کررہی ہے۔

بیٹے کا تدفین سے انکار

مفتی منیر شاکر کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے نے تدفین سے انکار کر دیا ہے۔ مقتول کے بیٹے کا کہنا ہے کہ جب تک پولیس افسران جوابدہ نہیں ہوں گے، کفن دفن نہیں کیا جائے گا۔

مفتی منیر شاکر کے بیٹے نے شکوہ کیا کہ انہیں مسلسل خطرات لاحق تھے، لیکن بار بار درخواستوں کے باوجود کوئی حفاظتی اقدام نہیں کیا گیا۔ انہوں نے پولیس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا، ’آپ نے میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیے تھے تاکہ کوئی مفتی صاحب کو شہید کرے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک ذمہ داران کا تعین نہیں ہوتا اور جواب نہیں دیا جاتا، احتجاجاً تدفین نہیں کی جائے گی۔ مفتی منیر شاکر کے بیٹے کا مزید کہنا تھا، ’مجھے بندوق اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی، لیکن میرے والد کو تحفظ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔‘

شہادت کے بعد علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ اہل علاقہ بھی انصاف کے مطالبے کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔

مفتی منیر شاکر کا ماضی

مقامی انگریزی اخبار کے مطابق مفتی منیر شاکر، جو کرم ایجنسی کے ایک عالم دین تھے، 2004 میں خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں آ کر آباد ہوئے۔ انہیں اپنے آبائی علاقے سے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں نکال دیا گیا تھا۔ خیبر ایجنسی میں ان کی آمد ابتدائی طور پر کسی کی نظر میں نہ آئی۔

بعد ازاں، انہوں نے ایک مقامی ریڈیو اسٹیشن قائم کیا اور دوبارہ اپنے نظریات کے تحت حامیوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ اس بار ان کا ہدف ایک بریلوی عالم دین، پیر سیف الرحمان تھے، جو 1980 کی دہائی میں افغانستان سے ہجرت کر کے خیبر ایجنسی میں آباد ہوئے تھے اور وہاں ایک مدرسہ چلا رہے تھے۔

دونوں گروہوں کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد، 2006 میں ایک جرگہ بلایا گیا، جس نے فیصلہ دیا کہ دونوں علما کو علاقے سے نکال دیا جائے۔ پیر سیف الرحمان نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا، تاہم مفتی منیر شاکر نے پہلے تو مزاحمت کی لیکن بالآخر مقامی افراد کے دباؤ پر علاقے سے نکلنا پڑا۔ مفتی منیر شاکر نے اسلحہ بردار گروہ کی قیادت کے لیے مقامی ٹرانسپورٹر منگل باغ کو اپنا جانشین مقرر کیا، جسے بعد میں لشکرِ اسلام کے نام سے جانا جانے لگا۔

2008 میں، باڑہ میں قائم شدت پسند گروہ لشکرِ اسلام پر پابندی عائد کر دی گئی۔

peshawar blast

Mufti Munir Shakir