سپریم کورٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کیس میں تمام فریقین کونوٹسز جاری کردیے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 26 ویں آئینی ترمیم کیس میں فل کورٹ اور لاٸیو اسٹریمنگ سمیت درخواستوں پر تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
سپریم کورٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر پہلی سماعت آج ہورہی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شاہد بلال بھی شامل ہیں۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف اب تک 29 سے زائد درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں، جن میں ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو وکلاء حامد خان اور فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے۔
وکلاء نے کہا کہ 26ویں ترمیم کے خلاف فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ابھی آپ کے خواہشات کے مطابق فل کورٹ نہیں بن سکتا، آئینی بینچ میں ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمشن کرتا ہے، جوڈیشل کمشن نے جن ججز کو آئینی بنچ کے لیے نامزد کیا وہ سب اس بینچ کا حصہ ہیں، ججز کی نامزدگی جوڈیشل کمشن کرتا ہے، کیسز کی فکسشین 3 رکنی کمیٹی کرتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کے معاملے پر آپ خود کنفیوز ہیں، آپ اس بنچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔
جس پر وکلاء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، آئینی معاملہ صرف آئینی بینچ ہی سنے گا۔ جسٹس جمال خنا مندوخیل نے کہا کہ آئینی بینچ میں موجود تمام ججز پر فل کورٹ ہی بنایا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فل کورٹ کا معاملہ چیف جسٹس کے پاس ہی جاسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے نے وکلاء کو کہا کہ لگتا ہے آپ پہلے دن سے ہی لڑنے کے موڈ میں ہیں۔ جس پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہتے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اگر کوٸی فریق بحث کرنے کو تیار نہیں تو عدالت حکم جاری کرے گی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکلاء کو کہا کہ سمجھ نہیں آرہی آپ ہچکچاہٹ کا کیوں شکار ہیں؟ جو اس بینچ کے سامنے بحث نہیں کرنا چاہتا وہ پیچھے بیٹھ جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے پر پابندی تو کوئی نہیں ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 26ویں ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ چھبیسیویں ترمیم کی منظوری کے وقت ایوان نامکمل تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کیلئے کل ممبرز پر ووٹنگ ہوئی یا دستیاب ممبرز پر؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دستیاب ارکان پر ووٹنگ ہوئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دستیاب ارکان کا جو ٹوٹل بنا وہ مکمل ایوان کے دو تہائی پر پورا اترتا ہے؟ جواب میں فیصل صدیقی نے کہا کہ گنتی انہوں نے پوری ہی کرلی تھی ہم اس کا مسئلہ نہیں اٹھا رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا ایوان میں تمام صوبوں کی نمائندگی مکمل تھی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ خیبرپختونخواہ کی سینیٹ میں نمائندگی مکمل نہیں تھی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ خیبرپختونخواہ کی حد تک سینیٹ انتخابات رہتے تھے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اختر مینگل کی درخواست میں ترمیم کے حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے، ارکان اسمبلی ووٹ دینے میں کتنے آزاد تھے یہ بھی مدنظر رکھنا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں والے فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ درخواست میں ایک نکتہ مخصوص نشستوں کا بھی اٹھایا گیا ہے، ایوان مکمل ہی نہیں تھا تو ترمیم کیسے کر سکتا تھا۔
ایڈووکیٹ شاہد جمیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس ترمیم کا اختیار نہیں ہے کیونکہ یہ عوام کی نمائندہ نہیں ہے، عوام کے حقیقی نمائندے ہی آئینی ترمیم کا اختیار رکھتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں پہلے الیکشن کیسز کے فیصلوں کا انتظار کریں پھر یہ کیس سنیں؟ اس طرح تو یہ کیس کافی عرصہ لٹکا رہے گا۔
عدالت نے چھبیسویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کردئے اور آٸینی بنچ نے سماعت تین ہفتوں کیلٸے ملتوی کردی۔
عدالت نے آئینی ترمیم کیس میں فل کورٹ تشکیل اور لاٸیو اسٹریمنگ کی درخواستوں پر بھی نوٹس جاری کردیا۔
Comments are closed on this story.