میزائل اور ایٹمی پروگرام یا عمران خان، کیا پاکستان نئی امریکی آمریت کا شکار بننے والا ہے؟
’پاکستان ایک جوہری ملک ہے، اور اگر کوئی ملک جوہری صلاحیت کا حامل ہو تو اس سے مختلف انداز میں ڈیل کیا جاتا ہے، نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے نامزد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کر رکھی ہے، عمران خان کو رہا کیا جانا چاہیے، وہ ایک غیر روایتی سیاست داں ہیں، اگر وہ وزیراعظم کا انتخاب لڑنا چاہتے ہیں تو اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں، عمران خان پر کرپشن کے الزامات بعینہ ٹرمپ پر عائد الزامات کی طرح ہیں‘، یہ گفتگو ٹرمپ کے خصوصی ایلچی رچرڈ گرنیل نے ایک انٹرویو میں کی۔
یعنی اول پاکستان کا ایٹمی و میزائل پروگرام خطرہ ہے، دوم عمران خان کی رہائی اور الزامات کا مکمل طور پر رد کرنا گفتگو کے اہم نکات ہیں۔
ایٹمی پروگرام تو وہ نازک موضوع ہے جس پر کبھی کوئی حکومت سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوئی، دوسرا نکتہ اس وقت پاکستان کی پوری سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے، اسٹیبلشمنٹ اور بڑی سیاسی جماعتیں ایک طرف ہیں جبکہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی دوسری طرف ہیں، اول الذکر بانی کی سزا کا طالب ہے اور آخرالذکر ناصرف رہائی بلکہ مسند اقتدار حوالے کرنے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔
اس لڑائی کو کئی برس ہونے کو آئے ہیں، سیاست، معیشت یا معاشرت سب کچھ معلق تھا، خدا خدا کرکے فریقین میں بات چیت کا راستہ کھلا ہے، ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی میں کچھ کمی آئی ہی تھی کہ امریکی ایلچی نے نیا پینڈورا باکس کھول دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی سیاست مثبت اور مذاکرات کی راہ پر آئی تو یہ بیان کیوں دیا گیا؟ کیا پاکستان میں سیاسی استحکام امریکا کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے؟ اور بظاہر عمران خان کی رہائی کی بات کرکے پی ٹی آئی کی پشت تھپتھپائی ہے کہ ڈٹے رہو، ہلکے نہ پڑنا، یا پھر حکومت کو دھمکی دی گئی ہے کہ ایٹمی پروگرام پر ہماری بات ماننے کے لیے تیار ہوجاؤ۔
یوں تو پاکستان کے میزائل اور ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے یا اس میں رخنہ ڈالنے کے لیے امریکا مسلسل اقدامات کرتا رہا ہے، متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرچکا ہے، حال ہی میں مزید 4 پاکستانی کمپنیاں بھی پابندی کی زد میں آئی ہیں لیکن کسی نہ کسی طرح پاکستان کا میزائل پروگرام جاری ہے اور جدید سے جدید تر ہوتا جارہا ہے، تازہ ترین بین البراعظمی میزائل تجربہ اس کی روشن مثال ہے، بائیڈن انتظامیہ میں نائب مشیر برائے قومی سلامتی جان فائنر کے مطابق پاکستان ایسے میزائلوں کی تیاری میں مصروف ہے جو امریکا کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اپنی آخری سانسیں لیتی امریکی حکومت کے محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے طویل فاصلے والے میزائل پروگرام کی امریکا نے پہلے بھی کبھی حمایت نہیں کi اور نہ کرے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف واضح کرچکے ہیں کہ چاہے کچھ ہوجائے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، امریکا کی پابندیاں بلاجواز ہیں، یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان نے ستر ہزار سے زیادہ شہادتیں پائیں، سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان برداشت کیا اور افغانستان میں امریکا کی ناقص پالیسیوں کا خمیازا آج تک بھگت رہا ہے۔
اب آتے ہیں امریکی ایلچی کے دوسرے نکتے کی طرف اور وہ ہے عمران خان کی رہائی۔
حکومتی رہنماؤں خواجہ آصف اور طلال چوہدری وغیرہ نے امریکی ایلچی کے بیان کی سخت مذمت کی ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف کے الفاظ میں عمران خان اسرائیل کا اثاثہ ہیں اور اسی اثاثے یعنی عمران خان کے ذریعے واحد اسلامی ایٹمی قوت کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں، 50 ہزار فلسطینیوں کی شہادت پر جو ضمیر نہ جاگا وہ ایک شخص کی گرفتاری پر جاگ گیا، ہم مرجائیں گے لیکن بیرونی دباؤ برداشت نہیں کریں گے، پاکستان کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے والا بچ کرنہیں جائے گا، بانی کے مقدمات ملکی قانون کے مطابق چلیں گے۔
بقول طلال چوہدری امریکا اپنی گود میں پالے شخص کو صرف اس لیے اقتدار میں لانا چاہتا ہے تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے، ایک آدمی کی رہائی کے لیے اتنی تگ و دو کا مطلب ہے کہ وہ مغرب کے لیے کچھ تو کرتا ہوگا، پاکستان نے سمجھوتا کیا تو شام اور لیبیا بن جائے گا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان، شیر افضل خان اور دیگر رہنماؤں کی طرف سے آنے والے بیانات جرات مندانہ اور حوصلہ افزا ہیں کہ بانی کی رہائی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، ملکی معاملات میں کسی کی مداخلت قبول نہیں، وہ عمران خان کی رہائی کے لیے بات کرنے پر امریکا اور دوسرے ملکوں کا شکریہ ضرور ادا کرتے ہیں لیکن عمران خان کی رہائی عدالتوں سے ہوگی اور انھیں کسی بیرونی پشت پناہی کی ضرورت نہیں ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے بیانات اپنی جگہ لیکن یہ بات تو اندھے کو بھی نظر آرہی ہے کہ پاکستان کے گرد جال بچھایا جارہا ہے، بلوچستان کی صورتحال، خیبرپختونخوا میں دہشت گرد گروپوں کا پھر سے ابھرنا، افغانستان سے مسلسل سرحدی خلاف ورزی جیسی چیزیں اسی جال کا ایک حصہ ہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف ایک ہے، وہ ہے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اپنی مرضی کے تابع کرنا۔
نئی آمریت دروازے پر دستک دے رہی ہے، فیصلہ کرلیں۔ نئے آمر کا مقابلہ کرنا ہے یا غلامی کا طوق گلے میں ڈالنا ہے؟