افغانستان کے لیے فارما برآمدات پر کے پی میں 2 فیصد سیس پر انڈسٹری کے تحفظات
افغانستان برآمد کی جانے والی دواؤں پر خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے 2 فیصد سیس نافذ کیے جانے پر فارما سیکٹر نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ شعبے کے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ اضافی لیوی سے پاکستانی برآمدات کی مسابقتی صلاحیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان کی مارکیٹ اس وقت پاکستانی دواؤں کی کھپت کے لیے بہت اہم ہے۔
فارما سیکٹر کی نمایاں شخصیات کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے پاکستان کی برآمدات پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس وقت افغانستان پاکستانی دواؤں کے لیے ایک اچھی منڈی ہے۔ ایسے میں حکومت کو ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں جن سے برآمدات میں اضافہ ہو۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) کے سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ برآمدی اشیا پر لاگو کیا جانے والا سیس دراصل ٹیرف کے طور پر کام کرتا ہے جس کے نتیجے میں چین اور بھارت کی مصنوعات کے مقابلےمیں پاکستانی مصنوعات زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں اور برآمدی منڈی میں مقابلہ کرنا اُن کے لیے ممکن نہیں ہو پاتا۔
لیوی نافذ کرنے سے برآمدی تاجروں پر اضافی مالیاتی بوجھ بڑھتا ہے اور افغان خریداروں کے لیے پاکستانی مصنوعات میں کشش گھٹ جاتی ہے۔ سستی متبادل اشیا کی تلاش میں وہ دوسری مارکیٹس کی طرف دیکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں برآمدات کے حوالے سے پاکستان کا خسارہ بڑھتا جاتا ہے۔
پاک افغان تجارتی روابط تاریخی طور پر بہت اچھے رہے ہیں۔ پاکستان چاول، دوائیں، سبزیاں اور خوردنی تیل برآمد کرتا رہا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں برآمدات میں ڈرامائی طور پر گراوٹ آئی ہے۔ 2017 میں افغانستان کے لیے پاکستان کی برآمدات 2 ارب ڈالر تھیں جبکہ 2023 میں یہ 96 کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہ گئیں۔ افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات کی گراوٹ میں سیاسی عدم استحکام، معاشی چیلنجز اور علاقائی ممالک کی طرف سے بڑھتی ہوئی مسابقت نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
افغانستان کے لیے پاکستان کی برآمدات میں فارماسیوٹیکلز کا حصہ نمایاں رہا ہے۔ 2023 میں پاکستان نے افغانستان کو 11 کروڑ 28 لاکھ ڈالر مالیت کی دوائیں برآمد کیں۔ افغانستان میں دواؤں کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اس سلسلے میں درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔
پانچ سال سے افغانستان پاکستانی دواؤں کی بڑی منڈی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی برآمدات کا 30 فیصد اس شعبے سے آتا ہے۔ افغانستان اگرچہ ہم سے جڑا ہوا ہے یعنی ترسیل کا مسئلہ نہیں اور تاریخی طور پر بھی دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات بہت اچھے رہے ہیں مگر پھر بھی چین اور بھارت کی طرف سے سستی برآمدات پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
فارما سیکٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی دواؤں کو افغان باشندوں کے لیے قابلِ ترجیح بنانا ہے تو خیبر پختونخوا حکومت کو 2 فیصد برآمدی سیس ختم کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ دو طرفہ تجارت کو پاکستان کے لیے زیادہ موافق بنانے کے اقدامات بھی لازم ہیں تاکہ چین اور بھارت کی طرف سے مسابقت کا سامنا کیا جاسکے۔
ترسیل کے معاملات درست بنانے کی ضرورت ہے۔ بیورو کریٹک رکاوٹیں دور کرنا بھی ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی معاہدے بھی ہوتے رہنے چاہئیں۔
افغانستان آج بھی پاکستانی مصنوعات کے لیے ایک اچھی مارکیٹ ہے۔ برآمدی شعبے کو درپیش چیلنجوں سے نپٹنے کی صورت میں افغانستان سے تجارتی تعلقات مستحکم ہوں گے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی مصنوعات کو ایک اچھی مارکیٹ میسر رہے گی۔