امریکی الیکشن کیا ہیں، صدر کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
امریکا میں ہونے والے الیکشن اس بار خاصے خطرناک نظر آرہے ہیں، کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، معمولی سے فرق سے فتح اور شکست کا فیصلہ ہوگا، امریکی عوام کو الیکشن کے بعد سول وار چھڑنے کا خدشہ ستانے لگا ہے، امریکیوں کی اکثریت کے مطابق ملک دس سال پہلے کے مقابلے میں آج زیادہ تقسیم ہے، قومی وحدت میں تفاوت صاف نظر آرہا ہے، اور یہ تقسیم اختلاف رائے سے بڑھ کر دشمنی کی شکل اختیار کرچکی ہے، الیکشن میں شکست کی صورت میں سابق صدر اور ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے اور ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت واشنگٹن پر قبضے کے لیے باغیوں کا حملہ بھی ہوسکتا ہے
اگر ہم گزشتہ امریکی صدارتی الیکشن کا جائزہ لیں تو ٹرمپ کو 2020کے الیکشن میں واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، 538الیکٹورل ووٹوں میں سے ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن نے 306الیکٹورل ووٹ لیے اور ٹرمپ کو 232الیکٹورل ووٹ ملے، بائیڈن کو 8کروڑ 12لاکھ 83ہزار 501عوامی ووٹ ملے جب کہ ان کے مقابل ٹرمپ کو 7کروڑ 42لاکھ 23ہزار 975ووٹ ڈالے گئے، جو امریکی صدارتی الیکشن میں کسی امیدوار کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں۔
اس کے باوجود ٹرمپ اور ان کے حامیوں نے 2020میں الیکشن میں ہونے والی شکست کو تسلیم نہیں کیا اور 06جنوری 2021کو واشنگٹن میں امریکی دفاتر پر حملہ کرڈالا، امریکی ایوان نمائندگان، ایوان بالا اور سرکاری دفاتر کو تہ و بالا کرڈالا، اس اقدام کا مقصد کانگریس کے مشترکا اجلاس کو الیکٹورل ووٹوں کی باقاعدہ گنتی سے روکنا تھا تاکہ بائیڈن کے باقاعدہ صدر کا اعلان نہ ہوسکے، حملے کے نتیجے میں امریکی ایوان نمائندگان جو جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑ گیا۔ بہرحال ٹرمپ اور ان کے حامی اپنے مقاصد میں ناکام رہے، اور آج بھی ٹرمپ کا یہی کہنا ہے کہ الیکشن چوری کیا گیا اور اب وہ ایک بار پھر فتح حاصل کریں گے اور امریکا کو عظیم تر بنائیں گے۔
امریکی الیکشن کا طریقہ کار بھی بڑا دلچسپ ہے لیکن اس سے پہلے ٹرمپ اور ہیرس کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
کمالا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے منشور
امریکی الیکشن میں ملکی تجارت، معیشت، ٹیکس اصلاحات اور امیگریشن پر زیادہ توجہ مرکوز ہوتی ہے، لیکن اس بار یوکرین جنگ اور غزہ کی صورتحال بھی کسی حد ت اثر انداز ہوسکتی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کے صرف چوبیس گھنٹے میں یوکرین جنگ ختم کرادیں گے۔ ٹرمپ اور ہیرس دونوں نے اسرائیل کی حمایت کا واضح اعلان بھی کر رکھا ہے، تاہم امریکی شہریوں کی زیادہ توجہ اندرونی مسائل پر ہے، ہیرس بڑے کاروبار اور زیادہ آمدنی والے شہریوں پر ٹیکس کی حامی ہیں، دوسری طرف ٹرمپ اربوں ڈالر کی ٹیکس کٹوتی کے حامل ہیں لیکن ان کا زیادہ فائدہ امرا و روسا کو پہنچے گا۔ دونوں رہنما بارڈر امیگریشن میں سختی کے حامی ہیں لیکن ٹرمپ کا رویہ انتہائی جارحانہ نظر آرہا ہے اور شاید تارکین وطن کے لیے کوئی اچھا فیصلہ سامنے نہیں آئے گا، اسی طرح اسقاط حمل بھی اہم نکتہ ہے، ٹرمپ اسقاط حمل کی اجازت نہ دینے اور ہیرس اسقاط حمل کی اجازت ماں کو دینے کے حق کی طرف دار ہیں۔
الیکٹورل کالج اور عوامی ووٹ کیا ہیں؟؟
الیکشن کے سال نومبر کا پہلا منگل الیکشن کا دن قرار پاتا ہے، چاہے اس روز کچھ بھی تاریخ ہو، اس بار 05نومبر کو امریکی الیکشن کا انعقاد ہورہا ہے۔ الیکشن میں امریکی عوام اپنے صدر کا براہ راست انتخاب نہیں کرتے بلکہ الیکٹورل کالج کو ووٹ دیتے ہیں، یہی الیکٹورل کالجیٹ صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔
ہر ریاست میں الیکٹورل ووٹ کی تعداد بلحاظ آبادی مختلف ہے، مثال کے طور پر اگر ایک ریاست میں الیکٹورل ووٹ کی تعداد 10ہے، اور بائیڈن کے 10میں سے 6نمائندہ اراکین یعنی الیکٹورل کالج فتح یاب ہوجاتے ہیں تو امریکی آئین کے مطابق اس ریاست کے پورے 10ووٹ بائیڈن کو مل جائیں گے۔ یعنی مخالف جماعت کے 4فاتح اراکین بھی صفر شمار ہوں گے۔ اسی لیے امریکی الیکشن کے دوران ہمیں دو طرح کے ووٹوں کی گنتی نظر آتی ہے، الیکٹورل ووٹ اور عوامی یا پاپولر ووٹ۔
ٹرمپ اور ہیرس کو حاصل یقینی حمایت
امریکی الیکٹورل ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے، امریکی عوام کی رائے اور گزشتہ الیکشن کے نتائج کا جائزہ لیں تو کچھ ریاستوں میں کاملا ہیرس اور کہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح یقینی ہے، اس لحاظ سے کاملا ہیرس کو 226 اور ڈونلڈ ٹرمپ کو 219الیکٹورل ووٹ حاصل ہوچکے ہیں جبکہ صدر بننے کے لیے 270ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ سات ریاستیں ایسی ہیں جنھیں سوئنگ اسٹیٹ یا غیر واضح ریاستیں کہا جاسکتا ہے، یہاں کسی کو اکثریت حاصل نہیں، ان میں ایریزونا کے 11، جارجیا کے 16، مشی گن کے 15، نیواڈا کے 6، نارتھ کیرولائنا کے 16، پنسلوانیا کے 19اور وسکونسن کے 10الیکٹورل ووٹ ہیں۔ یعنی سوئنگ اسٹیٹ کے کل 93ووٹ ہوئے۔
دونوں جماعتوں نے ان ریاستوں میں حمایت حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے، ایریزونا بنیادی طور پر ڈیموکریٹس کی حامی ریاست ہے لیکن یہاں پہلی بار ٹرمپ کے جیتنے کا امکان ہے۔ امریکی و عالمی میڈیا پر جاری بحث اور دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کسی کی بھی واضح فتح کے امکانات نہیں ہیں اور مقابلہ برابری کا ہوگا۔ بعض ماہرین تو مقابلہ ٹائی ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں لیکن ابھی تک امریکی الیکشن میں ایسا صرف ایک بار ہی ہوا ہے، 1824کا صدارتی الیکشن ٹائی یعنی برابر رہا تھا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ یہ ضروری نہیں کہ زیادہ عوامی یعنی پاپولر ووٹ حاصل کرنے والا ہی صدر بنے گا، صدر وہی بن سکے گا جسے زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل ہوں۔ ویسے اب تک 49بار صدارتی الیکشن ہوئے ہیں اور پانچ بار ہی ایسا ہوا کہ عوامی ووٹ کم حاصل کرنے والا صدر بنا۔
الیکشن ٹائی ہوجائے تو فیصلہ کیسے ہوگا؟
صدارتی الیکشن ٹائی ہونے کی صورت میں صدر کا انتخاب کانگریس اور نائب صدر کا انتخاب سینیٹ کرے گی تاہم انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی کانگریس صدر کے انتخاب کا حق رکھتی ہے، اسی طرح سینیٹ کے الیکشن میں جیتنے والے اور پچھلے ارکان مل کر نائب صدر کا انتخاب کریں گے۔
کانگریس اور سینیٹ الیکشن
صدارتی الیکشن کے ساتھ ایوان نمائندگان یعنی کانگریس کی تمام 435سیٹوں اور سینیٹ کی 34نشستوں پر بھی اسی روز الیکشن ہوں گے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے حامی گروپوں نے اسرائیلی امیدواروں کی جیت کے لیے تجوریوں کے منھ کھول دیے ہیں۔ یوں تو ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلیکن دونوں جماعتوں میں اسرائیلی حمایتی اکثریت میں ہیں تاہم غزہ میں عورتوں اور بچوں کی نسل کشی پر امریکی عوام نے مسلسل غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ رائے شماری کے دوران اپنے غصے کا اظہار کرسکتے ہیں، اس لیے اسرائیل یا اس کے حمایتی گروپ کسی قسم کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہیں اور الیکشن مہم پر پانی کی طرح پیسا بہا رہے ہیں تاکہ اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔
امریکی الیکشن 2024کو تاریخ کے خطرناک ترین الیکشن کہا جارہا ہے، جس میں تشدد کا بڑھتا رجحان، مخالف جماعت کے اراکین کی کردار کشی، نازیبا الفاظ اور ہتک آمیز انداز گفتگو صاف نظر آرہا ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ریاست ایریزونا میں خطاب کے دوران ٹرمپ نے کمالا ہیرس کا نام بہت نسل پرستانہ انداز میں لیا، جلسے میں موجود افراد نے بھی خوب انجوائے کیا، ٹرمپ نے اپنے لہجے سے کمالا کو اس طرح ادا کیا جس وہ کمالا کو تارکین وطن اور غیرمقامی گردانتے ہیں اور انھیں امریکی نہیں سمجھتے۔ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوچکا اور گولی ان کے کان کی لو کو چھو کر گزر گئی۔ یوگوپول نے 18سے 21اکتوبر کے درمیان ایک ہزار دو سو رجسٹرڈ ووٹرز سے ان کی رائے جانی جس میں 27فیصد نے الیکشن کے بعد سول وار کا خطرہ ظاہر کیا، 84فیصد کے مطابق امریکا دس سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ منقسم ہے، 66فیصد بولے کہ ٹرمپ شکست کو تسلیم نہیں کریں گے،
الیکشن بھی ہوجائیں گے، نتائج بھی آجائیں گے لیکن الیکشن کے بعد امریکا کی اپنی صورت کیا ہوگی، یہ اہم نکتہ ہے، ایک انٹرویو کے دوران جب ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ صدر بن گئے تو اپنے خلاف موجود کرمنل چارجز سے کیسے نمٹیں گے اور کیا آپ صدارتی استثنا استعمال کرتے ہوئے خود کو معافی دیں گے اور کیا اسپیشل کرمنل کونسل جیک اسمتھ کو گھر بھیج دیں گے، تو ٹرمپ نے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا اور کہا یہ بہت آسان ہے، میں اسے دو سیکنڈ میں گھر بھیج دوں گا۔ ٹرمپ کی فتح کی صورت میں امریکا کے اندر اور باہر سیاست کی شکل کیا ہوگی یہ تو واضح ہوگیا۔ اور اگر کاملا ہیرس جیت گئیں تو وہ امریکا اور دنیا کے لیے کیسی ہوں گی، یہ بھی جلد پتا چل جائے گا۔
Comments are closed on this story.