Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

ناموافق قوانین کے باعث بیرونی دواساز ادارے پاکستان چھوڑنے پر مجبور

قواعد و ضوابط اور پرائسنگ کو معقول بناکر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے، عائشہ حق کی گفتگو
شائع 22 جولائ 2024 02:27pm

پاکستان میں دواسازی کے شعبے کو غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ناموافق قوانین اور قواعد و ضوابط کے باعث بیرونی عالمی شہرت یافتہ بیرونی دواساز ادارے ملک سے نکل رہے ہیں۔ اب صرف چار بیرونی کمپنیاں ایسی ہیں جن کی مینوفیکچرنگ فیسلٹیز پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔

فارما بیورو کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عائشہ ٹی حق پاکستان میں دواسازی کے شعبے کی ترقی و استحکام کی راہ میں حائل مشکلات کی صراحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ”پاکستان میں ریگیولیٹری ماحول (قواعد و ضوابط) بیرونی دواساز اداروں کی ترقی و استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دی ڈریپ ایکٹ مجریہ 2012، ڈرگز ایکٹ مجریہ 1976 اور ڈرگ پرائسنگ پالیسی مجریہ 2018 میں بہت سی پیچیدگیاں، خامیاں اور تضادات ہیں جو اختیارات، غیر واضح آپریٹنگ پراسیجرز اور اہم دواؤں کی غیر منطقی قیمتوں کے حوالے سے ہیں۔ اِن مسائل نے دواسازی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل کردیا ہے۔“

عائشہ حق نے مزید بتایا کہ پاکستان میں آکر کاروبار شروع کرنے اور جمانے والے ملٹی نیشنل دواساز اداروں کی تعداد 30 سے زائد ہے تاہم چند حالیہ عشروں میں یہ تعداد گھٹ کر صرف چار رہ گئی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دواسازی کا شعبہ کس نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہے۔

عائشہ حق مزید کہتی ہیں ”عالمی شہرت یافتہ غیر پاکستانی دواساز اداروں کے یہاں سے رخصت ہونے کی بنیادی وجوہ میں محصولات کا غیر متوازن نظام، قواعد و ضوابط سے متعلق چیلینج، ملک کا مجموعی معاشی عدم استحکام، قیمتیں متعین کے نظام پر سرکاری کنٹرول اور جعلی دوائیں نمایاں ہیں۔ قیمتیں متعین کرنے کے میکینزم پر سرکاری کنٹرول نے بیرونی دواساز اداروں کے لیے پاکستان میں کام جاری رکھنا انتہائی دشوار کردیا ہے کیونکہ اِس کے نتیجے میں منافع کی گنجائش کم رہ گئی ہے اور بیشتر معاملات میں خسارے کا سامنا ہے۔“

عائشہ حق تصریح کرتے ہوئے کہتی ہیں ”قیمتوں کے تعین سے متعلق موجودہ پالیسی ناپائیدار ہے اور اس کے نتیجے میں بیشتر دواساز اداروں کو کم قیمت والی بہت سی دواؤں کے معاملے میں خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کوئی بھی کاروباری ادارہ خسارے کے ساتھ تو نہیں چلایا جاسکتا۔ اِس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ادارے اس قابل نہیں رہتے کہ مزید خسارہ برداشت کرسکیں یا پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں نئی دوائیں متعارف کراسکیں۔“

بہت سے ماہرین دواسازی کے شعبے تیزی سے کم ہوتی ہوئی سرمایہ کاری کو ملک کے لیے درکار زرِمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے حجم کے روپ ہی میں نہیں دیکھتے بلکہ اُن کے خیال میں یہ کیفیت دواسازی کے شعبے میں ’تحقیق و ترقی‘ کے فروغ کی بھی راہ روک رہا ہے جبکہ اس شعبے سے بہت سے ہنرمند وابستہ ہیں اور یہ شعبہ پاکستانی شہریوں کے کریئر کے ارتقا میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

عالمی شہرت یافتہ دواساز اداروں کے پاکستان سے رخصت ہونے سے ملک کے بارے میں منفی تاثر قائم ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں دیگر شعبوں میں بھی پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے پنپنے کی راہ بھی مسدود ہوتی چلی جاتی ہے۔

دی فارما بیورو اہم یا ناگزیر دواؤں کی قیمت کے تعین کے معقول اور خود مختار نظام کے متعارف کرائے جانے، محصولات کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور پیچیدگیوں کے دور کیے جانے اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرنے والے ماحول کے انسداد کے حوالے سے پالیسی کی سطح پر تبدیلیوں کی وکالت کر رہا ہے۔

عائشہ حق بین الاقوامی سرٹیفکیشن کے لیے ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو زیادہ با اختیار بنانے اور جعلی دواؤں کی بیخ کُنی کے حوالے قواعد و ضوابط میں اصلاحالات پر زور دیتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے ”لازم ہے کہ حکومت ایسا کاروبار دوست ماحول پیدا کرے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرے اور اُنہیں پاکستان میں سرمایہ کاری میں کشش محسوس ہو۔ ہمیں خطے کے دیگر ممالک مثلاً بنگلہ دیش سے سیکھنا چاہیے کہ کس طور اُس نے دواؤں کے معاملے میں لچک دار پرائسنگ پالیسی اپناکر دواسازی کے شعبے کو بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ پُرکشش بنایا ہے۔“

عائشہ حق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بنیادی طور پر ضروری سمجھی جانے والی 494 دواؤں کی قیمت کے تعین کو حکومت کنٹرول کرتی ہے جبکہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے اس معاملے میں لچک دار طرزِ فکر و عمل اپنائی ہے۔ وہ کہتی ہیں ہمیں بھی دواؤں کی قیمت کے تعین کے حوالے سے لچکد دار رویہ اختیار کرنا ہے جس میں پائیداری بھی ہو اور ہمارے مجموعی مفاد کے حوالے سے قابلِ قبول بھی۔

اس پوری صورتِ حال نے پاکستان میں مریضوں کو جدید ترین تحقیق اور ٹیکنالوجیز کی مدد سے تیار ہونے والی بہترین دواؤں کی عدم دستیابی کے حوالے سے شدید منفی تاثر پیدا کیا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹرز اور مریضوں کے پاس دواؤں کے حوالے سے بہت محدود چوائس ہے، لاگت بڑھتی جارہی ہے اور معیار بھی متاثر ہو رہا ہے۔

عائشہ حق کہتی ہیں کہ پاکستان کے فارما سیکٹر سے ملٹی نیشنل اداروں کے اخراج سے ہونے والے نقصان کا بالکل درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے تاہم دواؤں کی برآمد میں 5 ارب ڈالر اور براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں ایک اب 50 کروڑ ڈالر کے خسارے کا اندازہ ہے۔

عائشہ حق کہتی ہیں “پاکستان میں دواسازی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ پالیسی میں معقول اور درست اصلاحات کے ذریعے ہم پُرکشش اور کاروبار دوست ماحول پیدا کرسکتے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ معیاری دواؤں اور علاج کی بہتر سہولتون تک اہلِ پاکستان کی رسائی یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔

ESSENTIAL DRUGS

PHARMA SECTOR

ANAMOLIES

CONTROLLED PRICING

INLEXIBLE TAXATION