زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، راولا کوٹ جیل سے فرار 18 قیدیوں کا سراغ نہ مل سکا
زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، چار روز بیت گئے مگر آزاد کشمیر کی ڈسٹرکٹ جیل راولا کوٹ سے فرار 18 قیدیوں میں سے ایک کا بھی سراغ نہ لگ سکا۔
حکومت کی طرف سے مفرور قیدیوں کے سروں کی قیمت مقرر کرنے سمیت، جدید آلات اور ڈرون کمیروں کے استعمال سمیت تمام حربے ناکام ثابت ہوئے۔
سیکرٹری حکومت چوہدری رقیب کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیٹی کی جانب سے تحقیقات آج تیسرے روز بھی جاری ہے، جب کہ حکومت نے مفرور قیدیوں کی تلاش اور گرفتار میں تعاون کرنے والے شہریوں کے لیے تیس لاکھ سے ایک کروڑ روپے فی قیدی انعام دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔
واضح رہے کہ 30 جون کو آزاد کشمیر کے علاقے راولاکوٹ میں قیدیوں کے ٹولے نے جیل توڑ دی تھی، سزائے موت کے چھ مجرموں اور بھارت کو مطلوب شخص سمیت 19 قیدی دن دہاڑے بھاگ نکلے تھے، جب کہ پولیس فائرنگ سے ایک قیدی مارا گیا تھا ، اس سانحہ کے بعد پولیس نے انکوائری شروع کرتے ہوئے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سمیت 7 اہلکاروں کو گرفتار کرلیا تھا۔
بھاگنے والوں میں ثاقب مجید، عثمان اقرار، شمیراعظم، عامرعبداللہ ، فیصل حمید اور ناظریاسین سزائے موت کےمجرم شامل ہیں۔ نعمان آصف، آصف دلبر اور ثقلین سرفراز کو 25 سال، مکرم فیصل، ساجد نصیر اور سہیل رشید کو 10، 10 سال قید سنائی جاچکی تھی۔
ڈسٹرکٹ جیل راولاکوٹ سے 19 قیدیوں کے فرار ہونے کے واقعے کے بعد حکومت نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کو عہدے سے برطرف کرکے او ایس ڈی کر دیا تھا۔ پولیس ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد ہی راولاکوٹ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت 7 اہلکاروں کو بھی حراست میں لے کر تحقیقات شروع کر دی گئی تھیں۔
راولاکوٹ جیل سے فرار ہونے والے غازی شہزاد کو آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے 20 جون کو میرپور منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
سانحہ کے بعد آزاد کشمیر بھر کی تمام جیلوں میں سکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی، حکومت آزاد کشمیر نے مبینہ غفلت برتنے پر راولاکوٹ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور دیگر عملے کو بھی معطل کیا۔
حکومت نے راولاکوٹ جیل واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کے لیے چیف جسٹس ہائیکورٹ کو خط لکھ دیا تھا۔
خیال رہے کہ انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات نے تیس مئی کو رجسٹرار ہائی کورٹ کو خط لکھا تھا جس میں ڈسٹرکٹ جیل راولاکوٹ کو خطرناک قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے کے امکانات کے پیش نظر انتہائی غیر محفوظ قرار دیا تھا۔
اس کے باجود جیل کی سکیورٹی کیوں نہیں بڑھائی گئی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ممکنہ طور پر سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے قیدیوں کے فرار کا واقعہ پیش آیا۔
3 خطرناک قیدی
خط میں لکھا گیا تھا کہ غازی شہزاد، محمد ایاز، تیمور ممتاز خطرناک قیدی ہیں، تینوں خطرناک قیدیوں کو دوسری جیل منتقل کیا جائے، ڈسٹرکٹ جیل کی عمارت بوسیدہ اور پرانی ہے، جیل عمارت کے باہر کوئی حفاظتی دیوار بھی نہیں، جبک مصروف ترین شاہراہ بھی جیل کے باہر سے گزرتی ہے۔
اس حوالے سے خط میں کہا گیا تھا کہ جیل کا مرکزی دروازہ بھی سڑک پر کھلتا ہے، جیل دہشتگردوں کو رکھنے کے قابل نہیں ہے، ملزمان شاطر، خطرناک اور ذہین ہیں، یہ ملزمان بھاگنے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔
Comments are closed on this story.