عورت فاؤنڈیشن کا وفاقی بجٹ میں عائد ٹیکسوں کو واپس لینے اور خواتین کو خصوصی چھوٹ دینے کا مطالبہ
عورت فاؤنڈیشن نے وفاقی بجٹ میں عائد ٹیکسوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔عورت فاؤنڈیشن نے وفاقی بجٹ برائے سال 25-2024 پر اپنی تنقیدی جائزہ کی رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ جائزہ رپورٹ پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے عورت فاؤنڈیشن کے لیے تحریر کی ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں فوری سفارشات کے مطابق بجٹ 25-2024 میں لگائے گئے تمام تنزل پسندانہ ٹیکسوں کا نفاذ فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انکم ٹیکس استثنیٰ کی حد 100،000 روپے ماہانہ یا 12 لاکھ روپے سالانہ سے شروع کی جائے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ عورتوں پر غربت کے بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کے پیش نظر انہیں خصوصی ٹیکس چھوٹ دی جانی چاہیے۔ خاص طور پر بیوہ، طلاق یافتہ، اورغیر شادی شدہ خواتین کو۔ تمام ضروری اشیاء خوردونوش بشمول دودھ، بچوں کی خوراک، بیکری کی مصنوعات، اسکولوں اور تعلیم کے لیے ضروری اشیاء کو ٹیکس سے مکمل طور پر استثنیٰ دیا جائے۔
رپورٹ میں ادارہ جاتی سفارشات بھی کی گئی ہیں جن کے مطابق پاکستان میں اقتصادی بحران کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔ جن میں روپے کا خسارہ اور ڈالر کا خسارہ شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہیں بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس بحران نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جہاں اخراجات آمدنی سے دو گنا زیادہ اور درآمدات برآمدات سے دوگنا زیادہ ہیں۔ اور یہ دو طرح کے سو فیصد سے زائد خسارے گذشتہ دو دہائیوں سے قرضوں کی مدد سے پورے کیے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی معیشت اب صرف قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ ہماری معیشت بجائے اس کے کہ اپنی پیداواری بنیاد کو مستحکم کرتی یہ برسوں سے نہیں، دہائیوں سے مالیاتی بد انتظامی اور قرضہ معیشت کے ذریعے پرتعیش اخراجات کی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہ واضح طور پر ناپائیدار صورتحال ہے، لہذا یہ بات حیران کن نہیں کہ قومی معیشت شدید جھٹکوں کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس صورتحال کا حل سادہ اور واضح ہے۔ ہمیں اخراجات میں اس حد تک کمی لانی ہوگی جتنی ہماری آمدنی برداشت کرتی ہے، اور درآمدات کو بھی اتنا کم کرنا ہوگا جتنی برآمدات اور بیرونی ترسیلات زر برداشت کرتی ہیں، ایسا کرنا اس لیے لازم ہے کہ قرضوں کی ادائیگی، مالیاتی خساروں سے پیدا ہونے والے تناسب کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اگر اخراجات آمدنی سے مستقل بڑھتے رہے تو، خسارے بھی بڑھتے رہیں گے، اضافی خساروں کے نتیجے میں ہمارا قرض بھی بڑھتا رہے گا۔ چناچہ اضافی قرضہ جات کی پیداوار کو فی الفور روکنے کی ضرورت ہے۔
اس رپورٹ میں پیش کی گئی تجاویز مختلف پیشہ ورانہ حلقوں اور اداروں میں زیر بحث رہی ہیں۔ ان تجاویز کو تکنیکی اور اقتصادی جائزہ کے مرحلے سے ایک بار پھر گزارنا لازمی ہے۔ تاہم کچھ تجاویز پرعمل ناگزیر ہے۔ بعض تجاویز مختصرا یہاں پیش کی جارہی ہیں۔ سول انتظامیہ کے اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں توانائی کی رعایتیں، دفائی رعایتیں، سول انتظامیہ کو دی جانے والی رعایتیں شامل ہیں۔
• توانائی کے شعبے میں دی گئی رعایتوں کا سب سے ظالمانہ پہلو یہ ہے کہ یہ ماضی میں کیے گئے معاہدوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں، اوران معاہدوں میں توانائی کی اصل خریداری کی بجائے، بجلی کی پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر پہلے سے متعین کردہ قیمت کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ان معاہدوں پر نظر ثانی، ان میں ترامیم یا منسوخی کی ضرورت ہے۔ اگر اس کے نتیجے میں ہمیں یک وقتی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، تو ہمیں اس بحران سے نکلنے کے لیے اس کو ادا کردینا چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق ایک دوسرا حل duty/equity swap ہے یعنی قرض دار کمپنی کا قرض نہ ادا ہونے کی صورت میں قرض دہندہ انہی قرضوں کی مالیت حصص خرید لے گا اور کمپنی میں حصہ داربن جائے گا: اس کے معنی قرض کو حصص یا حصص کی ملکیت میں منتقل کرنا ہے۔ تاہم، یہ تجویز صرف پاکستانی سرمایہ کاروں پر لاگو ہونی چاہیے اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر اس کا اطلاق نہٰں ہونا چاہیے تاکہ ہم مستقبل میں زر مبادلہ کے خساروں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں اور بیرونی ترسیلات زر کے فوائد سے محروم نہ ہوں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دفاعی اخراجات ایک حساس معاملہ کیونکہ ان کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہے۔ اس کے باوجود جن اخراجات کا تعلق غیر محارب دفائی اخراجات سے ہے ان پر کٹوتی لگنی چاہیے۔ ہمین یقین ہے کی عسکری قیادت ان ضروری اقدامات پر عمل پیرا ہو سکتی ہے۔ سول انتظامیہ میں اخراجات کی کمی فی الوقت زیر غور ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے تقریبا چالیس محکمے صوبوں کو منتقل کیے تھے، جس سے ایسے اقدامانت کا راستہ کھل گیا ہے کہ وفاق میں کچھ وزارتوں، ڈویژنوں، اور بڑی تعداد میں ( خود مختار اور نیم خودمختار) اداروں کو بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام ایک عرصے سے حل طلب ہے اور اب اس پر عمل کر ہی لینا چاہیے۔
ڈالر اور روپے کا خسارہ: پیٹرولیم مصنوعات ( پیٹرولیم، تیل، چکنے مواد) کی درآمدات، ہماری کل درآمدی تخمینہ کا تقریبا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ ان میں سے فرنیس آئل (بھٹی کا تیل) اور ڈیزل پیٹرولیم ان درآمدات کا دوتہائی حصہ بنتے ہیں۔ اعلیٰ نوعیت کے فرنیس آئل درآمدات کی طلب بجلی کی پیداوار کے لیے مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس مقدار کو نیچے لایا جا رہا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو بالکل صفر کر دیا جائے۔
• ہماری دور دراز فاصلوں تک اشیاء کی ترسیل کا 95 فیصد انحصارروڈ ٹراسپورٹ پر ہے، اور سڑک کے ذریعے آمدورفت میں ڈیزل کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ تکنیکی طور پر روڈ ٹرانسپورٹ میں ریل ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں فی کلومیٹرتیل ایک تہائی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ چناچہ ریلوے کی بحالی، اور دور دراز کے فاصلوں تک اشیاء کی ترسیل سڑک کے بجائے ریل کے ذریعے ہونی چاہیے تاکہ ڈیزل کم استعمال ہو اور اس کے نتیجے میں اس کی درآمدات اورزر مبادلہ پر بوجھ میں بھی کمی آئے۔ ان اتنہائی اقدامات کے لیے، کسی نئے جائزے کا سوال غیر متعلق سا لگتا ہے۔غربت سے مارا، قرض کے نیچے دبا خاندان، جس کی آمدنی محدود ہے، اس کے پاس سوائے اس کے کوئی چارا باقی نہیں رہا کہ وہ دن میں تین کھانوں کی بجائے دو وقت کھانا کھائیں، وہ بھی اگر اس کی آمدنی اس کی اجازت دیتی ہو۔ غریب اور اب نچلا متوسط طبقہ بھی اب دو وقت روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ ریاست پاکستان اور اشرافیہ کو بھی لہذا اب دو وقت کے کھانے پر اکتفا کرنا چاہیے۔
Comments are closed on this story.