Aaj News

اتوار, ستمبر 08, 2024  
03 Rabi ul Awal 1446  

’اس نے کہا وہ کیپٹن ہے لیکن ڈرائیور نکلا‘، سوشل میڈیا پر بننے والے رشتے اکثر دھوکہ نکلتے ہیں

غریب لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے بظاہر شادی کا نتیجہ انسانی سمگلنگ یا جسم فروشی نکل سکتا ہے
اپ ڈیٹ 26 جون 2024 08:32am
Women face problems due to non-registration of divorce - Aaj News

پشاور ہائیکورٹ کی ایڈووکیٹ مہوش محب کاکاخیل نے آج نیوز سے گفتگو کے دواران بتایا کہ خیبر پختونخوا میں طلاق کی شرح میں مسلسل اضافے کی وجوہات میں عدم برداشت اور گھریلو ناچاکی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بننے والے تعلقات کے ذریعے ہونے والی شادیاں بھی نمایاں ہیں۔

مہوش محب کاکاخیل کے مطابق اُن کے پاس آنے والے کیسز میں ایک بڑی تعداد ایسی خواتین کی بھی ہوتی ہے جن کی شادیوں میں لڑکی کی ملازمت اور تنخواہ کے لالچ یا پھر لڑکی کا امارت کو دیکھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس رشتے سے لڑکا سیٹل ہو جائے گا، لیکن بعد میں معاملات بگڑ جاتے ہیں اور لڑکیاں تنگ آ کر خلع کا راستہ اپناتی ہیں۔

مہوش محب کاکاخیل نے یہ بھی بتایا کہ آج کل سوشل میڈیا پر بننے والے تعلقات میں دکھایا کچھ جاتا ہے لیکن بعد میں نکلتا کچھ اور ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر خود کو امیر دکھاتے ہیں جیسے کہ ’میرے پاس ایک کیس آیا کہ پہلے لڑکا لڑکی کی سوشل میڈیا کے زریعے دوستی ہوئی انھوں نے شادی کی اور بعد میں لڑکی خلع لینے عدالت آگئی کیونکہ شادی کے بعد اُسے پتہ چلا کہ لڑکا پشاور کی شفیع مارکیٹ میں جرابیں بیچتا تھا‘۔

مہوش نے کہا کہ اسی طرح ’میرے پاس ایک اور کیس آیا کہ لڑکے نے لڑکی کو بتا رکھا تھا کہ میں آرمی میں کیپٹن ہوں شادی کے بعد وہ آن لائن سروس کا ڈرائیور نکلا‘۔

ایڈووکیٹ مہوش محب کاکاخیل کے پاس آنے والے کیسز میں کئی کیسز ایسے بھی تھے جن میں لڑکوں یا مردوں نے غریب لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے بظاہر شادی کی لیکن بعد میں اُنہیں انسانی سمگلنگ ،فورس لیبر یا پھر prostitution کیلئے استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس ایسا کیس بھی آیا کہ سوات کی لڑکی کو انڈیا کا لڑکا پسند آیا اور وہ والدین کے خلاف تھانے چلی گئی کہ شادی کرنا اُس کا حق ہے، لیکن والد نے اپنی بیٹی کو انڈیا بھیجنے سے انکار کر دیا کیونکہ اُن کے بقول ماضی میں اس طرح کے رشتوں میں انسانی سمگلنگ کے ثبوت بھی ملے ہیں‘۔

پشاورکی عدالتوں میں آنے والے کیسز میں اکثریت ایسی خواتین کی بھی ہے جو سالوں اپنے شوہر اور سسرال کے ہاتھوں تشدد کا شکار رہتے ہوئے خاموش رہیں۔

ایڈووکیٹ مہوش محب کاکا خیل نے بتایا کہ ’ایسی خواتین کے خلع کے کیسز بھی میرے پاس آئے جن کی عمر پچاس ساٹھ سال تھی لیکن بچوں کے سیٹل ہونے تک انہوں نے انتظار کیا تشدد بھی برداشت کیا لیکن بچوں کے کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے خلع لے لی‘۔

مہوش کے مطابق لیکن نئی نسل ایک سال تک بمشکل گزارہ کرتی ہے اور اس دوران اگر وہ سیٹل نہ ہوسکیں تو پھر وہ عدالت سے خلع کے لئے رجوع کر لیتی ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں طلاق کی بڑھتی ہوئی وجوہات میں سوشل میڈیا پر بننے والے رشتے، رشتوں میں عدم برداشت، گھریلو ناچاکی اور جائیداد کی ڈیمانڈ جیسے معاملات شامل ہیں۔

پاکستان ڈیموگرافک سروے کے مطابق خیبرپختونخوا میں 31931 خواتین اور 13278 مرد طلاق یافتہ ہیں، تاہم طلاق کی اصل شرح کے بارے میں بات کرنا اس لئے مشکل ہے کیونکہ صوبے کے 70 فیصد دیہی علاقوں میں شادی اور طلاق رجسٹرڈ نہیں کرائی جاتی، جبکہ دوسری طرف طلاق کا رجسٹر نہ ہونا بھی خواتین کے لئے بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری کے حصول میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔

سروے کے مطابق صوبے میں 25 فیصد سابقہ شریک حیات نے ابتدائی طور پر طلاق دے دی تھی لیکن چونکہ طلاق رجسٹر نہیں تھی اس لئے بعد میں کفالت کی ادائیگی سے بچنے کے لئے طلاق سے انکار کردیا۔

KPK

Divorce rate