چوراہا اور بے گور و کفن لاشے
روز کوئی مرتا ہے، کوئی لاش گرتی ہے، لوگ روتے ہیں بلکتے ہیں کہ کوئی تو ان کا بین سنے، کسی کی کان پر تو جوں رینگے لیکن نہ زمین پھٹتی ہے اور نہ آسمان، ایک سانحے کی بازگشت ختم نہیں ہوتی کہ دوسرا لرزا دیتا ہے، لہو کی پیاس ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی، یہ پیاس زمین کی نہیں ہے، یہ ان بے حس حکمرانوں اور انتظامیہ کی ہے کہ جن کے پاس ایک دوسرے کو گالیاں دینے، سیاسی مشورے دینے کا وقت ہے، عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے، آئین و قانون کی پاس داری کرنے کا وقت ہے، لیکن ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، اگر ان کی کھیسے سے کچھ نکلتا بھی ہے تو صرف تعزیت کے چند الفاظ، اس کے بعد نیرو چین کی بانسری بجاتا ہے۔
حیدرآباد میں تیس مئی کو آبادی کے بیچوں بیچ قائم گیس سلینڈر کی دکان میں آگ لگ گئی، جس نے قریبی گھروں کو بھی لپیٹ میں لے لیا، ان میں ایک گھر ایسا بھی تھا جہاں مدرسہ تھا، ساٹھ کے قریب افراد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی، چند دن میں ہی اٹھارہ افراد جاں بحق ہوگئے، ان میں ایک شخص ایسا بھی ہے جس کی بیٹی اور بیٹا زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے، تیسرا بچہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ جائے سانحہ اور سول اسپتال کراچی میں رہنماؤں نے تابڑ توڑ دورے کیے، میڈیا پر دھڑادھڑ لائیو نشریات چلتی رہیں، رہنماؤں نے حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں برنس وارڈ نہ ہونے کا رونا رویا، مگرمچھ کے آنسو بہائے اور چلتے بنے۔
ایک اور قابل شرم بات یہ بھی ہے کہ پریٹ آباد سے کچھ ہی دور نشتر آباد فائر اسٹیشن موجود تھا لیکن کارآمد نہیں تھا، یہ اسٹیشن چھہ ماہ سے بند پڑا تھا، عملے کی کمی کی وجہ سے اسٹیشن کو بند کردیا گیا تھا، دھماکے کے ایک گھنٹے بعد پہلا فائر ٹینڈر پہنچا جو خاصی دور یعنی فقیر کا پڑ فائر اسٹیشن سے آیا تھا، اسی طرح سول اسپتال حیدرآباد میں جھلسنے والے مریضوں کے علاج معالجے کی سہولتیں موجود نہیں ہیں، زخمیوں کو کراچی منتقل کرنا پڑا، یہاں بھی سرکاری طور پر صرف سول اسپتال کا برنس وارڈ اچھا ہے، اگر کوئی یہ پوچھے کہ فائر اسٹیشن کیوں بند تھا؟ حیدرآباد میں برنس وارڈ کیوں نہیں ہے؟ پہلا فائر ٹینڈر دیر سے کیوں پہنچا؟ سڑکیں کون بنائے گا؟ ادارے کون تباہ کر رہا ہے؟ سندھ سرکار تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تحریک انصاف یا مسلم لیگ ن نے تباہ کردیے، سرکار آپ ہی تو مائی باپ ہیں، آپ ہی تو سرکار ہیں، سال دو سال سے نہیں بلکہ دہائیوں سے ہیں، کیا جواب دینا پسند کریں گے؟ اس غلیظ اور بے بس و بے کس عوام کو سمجھائیں گے کہ ایسا کون سا کام ہے، جو آپ کو عوام کی طرف دیکھنے نہیں دیتی؟
اسی طرح کراچی کی بات کریں تو دل پھٹنے لگتا ہے، حافظ قرآن، انجینئر، گولڈ میڈلسٹ، ایم بی اے کا طالب علم، شاندار شخصیت، یہ بہت سے افراد کی بات نہیں ہے، یہ ایک ہی شخص کی صفات ہیں، اور عمر کیا تھی اس کی صرف ستائیس سال، جسے ڈکیتوں نے گولیاں مار کر شہید کردیا، آپ لمحے بھر کو آنکھیں بند کریں، پھر دل پر ہاتھ رکھ کر اس شخص کے بارے میں سوچیں، ایسا جوان رعنا کیا سڑک پر پڑا ملتا ہے کیا اس کی ماں نے اسی لیے تعلیم و تربیت کا ایسا شاہکار تخلیق کیا تھا جو اسے یوں مٹی میں رول دیا جائے؟
ڈکیتی مزاحمت پر اموات کا سلسلہ جاری ہے، گزشتہ روز بھی مزید دو لوگوں کو ڈکیتوں نے قتل کردیا، ایک ٹھیلے والا اور دوسرا صنعت کار، ایک کو کورنگی میں تو دوسرے کو ڈیفنس میں، رواں سال ڈکیتی مزاحمت پر اموات باہتر سے زیادہ ہوگئیں، لوگ مرتے رہیں گے، ہر مرنے والے پر ایک نیا نمبر لگے گا، اسی طرح ہر ایک بددعا کے بعد دوسری بددعا سرکار کے حصے میں جمع ہوجائے گی، سرکار میں بیٹھے لوگوں کا آخرت پر ایمان ہو نہ ہو، عوام کا تو ضرور ہے، یہاں حساب نہ سہی، آخرت میں ہی سہی، لیکن یہ یاد رکھیں کہ عوام حساب لینے پر آجائیں تو کوئی در کھلا نہیں رہ سکتا، کوئی پاتال میں بھی جاچھپے تو بپھرے ہوئے عوام اسے ڈھونڈ نکالتے ہیں اور پھر چوراہے پر بوسیدہ جسم لٹکے رہتے ہیں، بے گور و کفن۔
Comments are closed on this story.