پاکستان روزانہ 1200 بچے سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں، ماہرین
ماہرین نے تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقع پر کہا ہے کہ حکومت رواں بجٹ میں تمباکو کی مصنوعات پر 30 فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقع پر پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام بچوں کو تمباکو سے بچانے کے موضوع پر مباحثے سے خطاب کرتے ٹوبیکو کنٹرول کی ڈاکٹر آمنہ کا کہنا تھا عام طور پر ہر 3 میں سے ایک شخص تمباکو نوشی کی وجہ سے مر جاتا ہے اور 6 سے 15 سال تک 1200 بچے روزانہ سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے تحفظ کے لئے سنگل سگریٹ کی دستیابی، اشتہارات اور روک تھام کو نفاذ، پالیسی اور آگاہی کی کوششوں میں اعلی ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پالیسی سازی میں نوجوانوں کی شمولیت اہم ہے، تاکہ ایسے پالیسی اقدامات وضع کیے جا سکیں جو زیادہ ہے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لئے زمینی حقائق کے مطابق ہوں گے۔
ایکسپرٹ محمد آفتاب خان نے کہا کہ آنے والے بجٹ میں تمباکو کی مصنوعات پر 30 فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے ہیڈ آف پالیسی، ایڈووکیسی اینڈ آؤٹ ریچ، سید علی واصف نقوی نے اپنی پریزنٹیشن میں کہا کہ 2022 کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر 13 سے 15 سال کی عمر کے 37 ملین سے زیادہ نوجوان تمباکو کا استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق یورپی خطے میں اس عمر کے 11.5 فیصد لڑکے اور 10.1 فیصد لڑکیاں تمباکو استعمال کرنے والے ہیں۔
واصف نقوی نے ذکر کیا کہ پاکستان میں روزانہ 1200 سے زیادہ بچے تمباکو کا استعمال شروع کر رہے ہیں، اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں الیکٹرانک تمباکو اور نکوٹین کی مصنوعات کے پھیلاؤ کے ساتھ پاکستان کے اعداد و شمار اور بھی تشویشناک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صنعت نوجوانوں کو ہدف بناتی ہے کہ وہ سالانہ لاکھوں صارفین کی موت یا بندش سے محروم ہو جائیں۔
ڈاکٹر وسیم آئی جنجوعہ نے انہوں نے کہا کہ تمباکو کی صنعت تمباکو کی مصنوعات کو فروغ دینے والے اشتہارات کے ذریعے گمراہ کن ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تمباکو کی صنعت تمباکو کی تشہیرکیلئے 7.62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے جس سے عوام کو تمباکو نوشی کی طرف راغب کرنی کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی نشاندہی ہوتی ہے۔
Comments are closed on this story.